کراچی: شہرقائد میں تین روز سے جاری آٹھواں کراچی لٹریچرفیسٹیول بالاخر اپنی تمام تر رونقیں سمیٹ کراختتام پذیر ہوگیا‘ فیسٹیول میں متعدد ادبی سیشنز سمیت 20 کتابوں کی تقریبِ رونمائی کا انعقاد کیا گیا۔
سال 2017 میں شہرقائد میں ہونے والی پہلی ادبی سرگرمی یعنی کہ کراچی لٹریچر فیسٹیول 10 فروری تا 12 فروری جاری رہا‘ فیسٹیول میں کئی ممالک سے ادب وفن سے وابستہ نامورشخصیات نے شرکت کی۔
لٹریچر فسٹیول کا انعقاد ساحل کنارے واقع بیچ لگژری ہوٹل میں کیا گیا ‘ ایونٹ کی افتتاحی تقریب میں دیگر معزز مہمانوں کے ہمراہ امریکی اور بھارتی سفارت کار نے بھی شرکت کی۔
کراچی کا ادبی میلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری
معروف فلمی شخصیات جو کہ ایونٹ کے مختلف سیشنز میں شریک ہوئے ان میں ندیم‘ مصطفیٰ قریشی‘ اور بشریٰ انصاری قابلِ ذکر ہیں جبکہ بنگلہ دیش سے خصوصی طورپر پاکستان تشریف لائیں نامور اداکارہ شبنم نے بھی اس ایونٹ کو رونق بخشی۔
ادب کے میدان میں مشتاق احمد یوسفی‘ مستنصر حسین تارڑ‘ ضیا محی الدین‘ عائشہ جلال‘ منزہ شمسی سمیت دیگر غالب رہے بالخصوص دوسرے دن مین گارڈن میں ہونے والے مرکزی سیشنز پر مستنصر حسین تارڑ اور آخری دن ضیا محی الدین چھائے رہے‘ حاضرین کی بڑی تعداد ان شخصیات کو سننے کے لیے جگہ کم پڑجانے کے سبب کھڑے ہوکر انہیں سنتی رہی۔
ایونٹ کے دوسرے دن مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا تاہم مشاعرے میں کراچی کے اساتذہ شعرائے کرام کی کمی شدت سے محسوس کی گئی جیسے کہ سحرانصاری‘ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم‘ رسائی چغتائی اور جاذب قریشی جبکہ زہرہ نگاہ‘ ریحانہ روحی اور شہناز نور جیسی شاعرات جو کہ دبستانِ کراچی کی شناخت ہیں۔ ایک عالمی ایونٹ ہونے کی حیثیت سے افتخارعارف کی کمی بھی شدت سے محسوس کی گئی۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کی مینیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید کا کہنا تھا کہ حاظرین کی اتنی بڑی تعداد ایونٹ کی کامیابی اور عوام میں ادب سے محبت کا ثبوت ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کے مزاج کے حامل شخص کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہے جو کہ لوگوں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ملک بھر کی مختلف جامعات سے تعلق رکھنے والے طلبہ طالبات کی پینٹنگز اور آرٹ ورک کو بھی اس ادبی میلے کا حصہ بنایاگیا تھا‘ جس سے نہ صرف طالب علموں کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم میسر آیا بلکہ وہاں آنے والے نوجوانوں کو بھی اس سے تحریک ملی۔
اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری کا کہنا تھا کہ ایسے ایونٹس نا صرف یہ کہ صحت مند معاشرے کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ان کے انعقاد سے عالمی دنیا میں مثبت پیغام بھی جاتا ہے جو کہ پاکستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظرانتہائی ضروری ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف اس قسم کے فیسٹیول ہراول دستے کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں کچھ کرنے کے خواہش مند نوجوانوں کے لیے بے پناہ مواقع ہیں۔
امورِ پاکستان کے ماہراور جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے سابق سربراہ ڈاکٹرجعفراحمد کا کہنا تھاکہ یہ اس طرح کی تہذیبی سرگرمیاں بے حد کارآمد ہوتی ہیں یہ عام لوگوں کے لیے ایک آسان موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ ادیب‘ شاعر یا فنکار سے مل سکیں اوران سے ربط استوار کرسکیں۔ انہوں مزید کہا کہ بدقستمی سے افغان جہاد کے دنوں سے پاکستان کا حقیقی تشخص مرجھا کررہ گیا تھالیکن اب صورتحال بہتر ہورہی ہے ایسے فیسٹیول اقوامِ عالم میں پاکستان کے تشخص کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان میں نٹیا شاسترارقص کے ماہر مانی چاؤ کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھا ایونٹ ہے جہاں فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد اکھٹے ہوئے ہیں اورپاکستان میں موجود فن کو عالمی دنیا تک رسائی کا موقع مل رہا ہے۔ مانی چاؤ عنقریب پاکستان میں رقص کا عالمی مقابلہ منعقد کرانے کے لیے پر عزم ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ ماہ تک اس حوالے سے حتمی اعلان کردیا جائے گا۔
بھارت سے تعلق رکھنے والی انٹرٹینمنٹ رائٹر پریانکا جھا نے ایونٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگےبڑھنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے کہ عوام میں باہم ربط بڑھایاجائے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب آنے اور تبادلہ خیال کرنے کا موقع دیا جائے۔
ایونٹ کے بانیان میں شامل معروف ادیب اورنقاد آصف فرخی نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کی اس عظیم الشان کامیابی اظہارِ مسرت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سال عوام کو اس سے بھی بہتر ادب کے ذائقے سے روشناس کرانے کی کوشش کریں گے۔
عوام کی اس کثیر تعداد میں آمد جہاں ایک جانب کراچی لٹریچر فیسٹیول کی کامیابی کا ثبوت ہے وہیں رش بڑھ جانے کے سبب شہریوں کو جہاں پارکنگ میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہیں ہاؤس فل ہونے کے سبب بہت سے لوگ اپنے پسندیدہ ادیبوں کو سننے سے بھی محروم رہے‘ لٹریچرفیسٹیول میں کتابوں کی خریداری کے رحجان میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے اوراس کی نسبت جگہ کم ہونے کے سبب بہت سے افراد نے خریداری کاارادہ ترک کردیا۔
کراچی کے ساحل کے کنارے تین روز سےآباد علم و ادب اورفن کا یہ عظیم میلہ گزشتہ رات میوزیکل کنسرٹ کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا اور اپنے پیچھے آئندہ سال تک کے لیے بے شمار یادیں چھوڑگیا۔