کراچی میں ساؤتھ پولیس کے ہاتھوں اغوا برائے تاوان کے ایک اور کیس کا انکشاف ہوا ہے 4 اہلکاروں نے تاجر کو اغوا کرکے ساڑھے 5 لاکھ روپے تاوان لیا۔
اس شہر کے لوگ پہلے ہی ڈاکوؤں اور اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر لٹ رہے ہیں ،رہی سہی کسر پولیس اہلکاروں کی مجرمانہ سرگرمیوں نے پوری کردی۔
اس حوالے سے متاثرہ تاجر کا کہنا ہے کہ کیس واپس لینے کیلئے اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے، عدالتی حکم کے باوجود اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج نہیں کیا جا رہا۔
اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق چاول کے تاجر حاجی شہزاد عباسی کو پولیس اہلکاروں کی جانب سے اغوا اور رشوت وصولی کے بعد رہائی ملی۔
حاجی شہزاد عباسی نے ایک ویڈیو بیان میں اپنی روداد سنادی، متاثرہ تاجر کا ویڈیو بیان اے آر وائی نیوز نے حاصل کرلیا۔
حاجی شہزاد عباسی نے بتایا کہ گزشتہ ماہ 6جولائی کو قیوم آباد سی ایریا سے سادہ لباس اہلکاروں نے مجھے گاڑی سمیت اغواء کیا، قیوم آباد چوکی انچارج ملک ارشد، سابق ہیڈ محرر شبیر سمیت2 افراد نے مجھے اغوا کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں قیوم آباد ماما ہوٹل کے قریب گاڑی میں اپنے ایک ملازم کے ساتھ موجود تھا، اس دوران 4 مسلح افراد دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گئے اور اسلحے کے زور پر مجھے قیوم آباد پولیس چوکی لے گئے۔
متاثرہ تاجر کے مطابق مجھے اور میرے ملازم کو الگ الگ کمرے میں بند کردیا گیا،کئی گھنٹوں تک مار پیٹ کی پلاس سے انگوٹھے اور پیر کے ناخن نکالنے لگے، مجھ سے گاڑی کے کاغذات دکھانے کو کہا جو میں نے دکھا دئیے۔
تاجر نے بتایا کہ مجھے برہنہ کرکے تشدد کیا جاتا رہا اور تاوان کیلئے 10 لاکھ روپے مانگے گئے اور مجھ سے سادہ کاغذات پر دستخط بھی لیے گئے، اہلکاروں نے کہا اگر کسی کو بتایا تو مقدمہ درج کردیا جائے گا۔
حاجی شہزاد کا کہنا تھا کہ اس وقت میرے پاس 55 ہزار روپے موجود تھے اور 5لاکھ روپے گھر سے منگوا کر دئیے، مجھے2پولیس اہلکار اپنے ہمراہ گھر کےقریب لائے، میں نے اہلیہ کو فون کرکے5لاکھ روپے گھر سے منگوائے۔
بعد ازاں میں شکایت درج کرانے ڈیفنس تھانے گیا تو پولیس ٹال مٹول کرتی رہی، جناح اسپتال سے میڈیکل کروایا، انگلی میں فریکچر کی رپورٹ موجود ہے، تاجر نے بتایا کہ اس واقعے کی تصدیق میری گاڑی میں ٹریکر سے کی جاسکتی ہے۔
تاجر نے کہا کہ پولیس افسران نے میری بات نہیں سنی تو میں عدالت چلا گیا، عدالت نے 22 اے کا آرڈر کیا لیکن پھر بھی پولیس ایف آئی آر درج نہیں کررہی، مجھےایس ایچ او ڈیفنس سمیت متعدد افسران نے دباؤ ڈالا کہ یہ کیس واپس لے لو۔
ایس ایچ او ڈیفنس نے مجھے کہا کہ چوکی انچارج اعلیٰ افسران کا خاص بندہ ہے،ہم مقدمہ نہیں کرسکتے، مجھے یہ پیشکش بھی کی گئی کہ آپ کی رقم واپس دلوا دیتا ہوں صرف آپ کیس واپس لے لو، ساتھ ہی مجھے بدنام زمانہ منشیات فروشوں سے بھی دھمکیاں دلوائی جارہی ہیں۔
حاجی شہزاد نے بتایا کہ مجھے بدنام زمانہ منشیات فروشوں سے بھی دھمکیاں دلوائی جارہی ہیں، وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی سے انصاف کامطالبہ کرتاہوں کہ ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کیا جائے، اغواء برائے تاوان میں ملوث افراد کےخلاف سخت کارروائی کی جائے۔