بدھ, جنوری 29, 2025
اشتہار

’’اغوا اور زیادتی کے بعد سفاکانہ قتل‘‘ کیا کمسن صارم کو انصاف مل سکے گا؟

اشتہار

حیرت انگیز

ایک اور کمسن پھول کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا گیا۔ انسانی لبادے میں وحشی درندے نے حیوانیت کی انتہا کرتے ہوئے 7 سالہ صارم پر جو وحشیانہ تشدد کیا، اس نے سب کو لرزا کر رکھ دیا ہے اور اب اس کے غمزدہ والدین انصاف کے منتظر ہیں۔

اس درد ناک کہانی کا آغاز 7 جنوری کو نارتھ کراچی کے علاقے میں واقع بیوت الانعم اپارٹمنٹ میں ہوا۔ منگل 7 جنوری کا سورج ننھے صارم کے گھر والوں کے لیے ایک اذیت ناک دن لے کر طلوع ہوا۔ اس دن صارم گھر سے مدرسے کے لیے بھائی کے ہمراہ نکلا ضرور لیکن پھر کبھی واپس نہ آ سکا۔ شام مدرسے سے واپسی پر جب بڑا بھائی صارم کے بغیر گھر پہنچا تو اس کی ڈھونڈ مچی۔ اڑوس پڑوس اور رشتہ داروں میں پتہ کیا گیا، لیکن کسی کو بچے کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔
تھک ہار کر والدین تھانے پہنچے اور صارم کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ بلال ٹاؤن پولیس حرکت میں آئی۔ بچے کی تلاش میں فلیٹوں کی تلاشی لینے کے ساتھ ساتھ پانی کے زیر زمین ٹینکوں، سیوریج لائنوں، چھت سمیت دیگر مقامات کی مکمل تلاشی لی گئی جبکہ شک کی بنیاد پر متعدد مقامات پر چھاپے بھی مارے لیکن ننھے بچے کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ مدرسے کی چھٹی کے وقت لائٹ گئی ہوئی تھی، اس لیے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی نہ مل سکی۔

اسی دوران گمشدہ صارم کے والد کو کچھ مشتبہ میسجز اور مس کالز آئیں جن میں تاوان کے لیے آن لائن پیسوں کا تقاضہ کیا گیا تاہم جب ان نمبروں کی تفتیش کی گئی تو یہ میسجز اور کالز پنجاب اور بلوچستان سے آئیں اور پولیس نے اس کو غیر متعلقہ قرار دے دیا۔

صارم کے والدین اور اہلخانہ کی بچے کے مل جانے کی امید اس کے لاپتہ ہونے کے 11 دن بعد اس وقت دم توڑ گئی جب 18 جنوری کو عمارت کے زیر زمین پانی کے ٹینک سے ہی اس کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی۔ لاش کے ساتھ اس کی مدرسہ کی ٹوپی اور گیند بھی ملی۔

عباسی شہید اسپتال میں بچے کے پوسٹمارٹم میں اس سے زیادتی کی تصدیق تو ہوئی، ساتھ ہی صارم کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد کس بے دردی سے قتل کیا گیا۔ یہ پتہ بھی اسی پوسٹمارٹم رپورٹ سے چلا جس نے سب کے دل دہلا دیے۔ اس رپورٹ کے مطابق صارم کی لاش چار دن پرانی تھی۔ معصوم بچے کی گردن کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی اور اس کا گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا۔ جسم پر ایک دو نہیں بلکہ زخموں کے 13 نشانات پائے گئے۔ جلد مختلف مقامات سے چھلی ہوئی تھی۔ اس کے پھیپھڑے بھی سکڑ گئے تھے جب کہ پیشانی کے علاوہ تمام زخم مرنے سے پہلے کے تھے۔

لاش ملنے کے بعد پولیس کی سست رفتار تحقیق میں پھرتیاں آ گئیں۔ ملزمان کی گرفتاری کے لیے سراغ رساں کتوں کی مدد لی گئی اور راتوں رات آپریشن کر کے فلیٹ سے دو مشکوک افراد گرفتار کیے گئے۔ پولیس نے شک کی بنا پر قریبی عزیز، مدرسے کے معلم، والو مین سمیت کئی افراد کو حراست میں لیا۔ بچے کے اعضا کے ساتھ گرفتار ملزمان کے خون کے نمونے اور کئی دیگر اہم شواہد بھی لے کر ڈی این اے کے لیے لیبارٹری بھیج دیے گئے جن کی رپورٹس اب تک موصول نہیں ہوچکی ہیں جب کہ اسی دوران اس کیس کی تحقیقات والی ٹیم نے یہ بھی امکان ظاہر کیا کہ صارم گمشدگی کے بعد سے موت تک اپارٹمنٹ سے باہر نہیں لے جایا گیا۔

اس واقعہ کی تحقیقات چار رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کا کہنا تھا کہ وقوعہ کے روز جب پولیس وہاں پہنچی تو کرائم سین کافی حد تک خراب ہو چکا تھا۔ اسلیے ڈی ایس پی فرید احمد خان کی سربراہی میں خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم نے ایک بار پھر جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور کرائم سین ری ایکٹ کر کے واقعہ کے سراغ تک پہنچنے کی کوشش کی۔

تاہم اس سے اگلے روز ہی 25 جنوری کو تحقیقاتی ٹیم نے صارم کی ابتدائی پوسٹمارٹم رپورٹ پر غیر تسلی بخش ہونے کا شبہ ظاہر کیا جس کی وجہ اس کیس کے واقعاتی شواہد اور ابتدائی پوسٹمارٹم رپورٹ میں بہت کم مماثلت بتائی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحقیقاتی ٹیم نے میڈیکولیگل آفیسر کو سوالنامہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جو ڈی این اے، کیمیکل ایگزامن رپورٹ آنے کے بعد بھیجا جائے گا جب کہ تحقیقاتی ٹیم نے اس کیس میں اعلیٰ حکام کو ڈاکٹروں کا خصوصی میڈیکل بورڈ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔ یوں اس معصوم صارم کے قاتل کا سراغ لگانے کے لیے پوری تفتیش کا دار و مدار اب صرف ڈی این اے اور فارنزک رپورٹ پر ہے۔

صارم 7 جنوری کو لاپتہ ہوا اور 18 کو اس کی چار دن پرانی لاش ملی۔ تحقیقات کے مطابق وہ 7 سے 13 تاریخ تک اسی اپارٹمنٹ کے کمپلیکس میں رہا، تو اس کو بروقت کیوں تلاش نہ کیا جا سکا؟ جو سراغرساں کتے بچے کی لاش ملنے کے بعد لائے گئے وہ لاش ملنے سے قبل کیوں نہ لائے گئے؟ ہر تھانے میں ویمن اینڈ چائلڈ ہراسمنٹ سیل بنا ہوا ہے، وہ سیل کیا اس موقع پر سو رہا تھا؟ اس کے علاوہ ہمارے پاس باڈی سینسر کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اس کے ذریعے ان جگہوں کو بھی چیک کیا جا سکتا ہے، جہاں انسانی آنکھ کام نہیں کرسکتی تو پھر اس کی مدد کیوں حاصل نہیں کی گئی؟ یہ اور ایسے کئی سوالات ہیں جو عوام کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں اور وہ اس کا جواب بھی چاہتے ہیں۔

صارم کی گمشدگی کے دوران 11 روز تک والدین بچے کی بازیابی دہائیاں دیتے رہے، مگر پولیس نے ابتدا میں روایتی ٹال مٹول والی تحقیقات کیں اور جب لاش ملی تو بھاگ دوڑ شروع ہوئی، لیکن اب یہ بھاگ دوڑ کیا غمزدہ والدین کو ان کا صارم واپس دلا سکے گی؟

آپ سب کو یاد ہوگا کہ جب 2018 میں قصور میں سات سالہ زینب کا اسی نوعیت کا زیادتی کے بعد قتل کا واقعہ ہوا تھا، جس کے مجرم کو پھانسی دے کر کیفر کردار تک بھی پہنچا دیا گیا تھا۔ ملک بھر کو ہلا دینے والے اس واقعہ کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس کی دوسری برسی پر زینب الرٹ بل پاس کیا تھا۔ اس بل کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کی کم سے کم سزا 10 سال سے بڑھا کر 14 سال قید کر دی گئی تھی جب کہ اسی بل میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ ایسے افسر کو بھی سزا دی جائے گی جو بچے کے خلاف جرم پر دو گھنٹے کے اندر ایکشن نہیں لے گا۔

یہ واحد کیس نہیں بلکہ گزشتہ سال کی خبروں میں تلاش کریں تو ہمیں ایسے کئی صارم، زینب اور دیگر معصوم بچے مل جائیں گے، جو ان وحشیانہ جرائم کے عادی افراد کی غلیظ سوچ کی نذر ہوگئے، لیکن ان میں کتنی زینب تھیں جن کو انصاف مل سکا اور کیا صارم کو بھی انصاف مل سکے گا؟ کیا آئندہ ایسے قبیح جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی موثر اقدامات کیے جائیں۔ اگر ہم نہ کہیں تو درست ہوگا کیونکہ صارم کے اغوا اور قتل کیس کے بعد سے ہی ملک کے اعداد وشمار تو کیا صرف کراچی میں کئی بچوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ ان میں سے دو کو بازیاب کرا لیا گیا لیکن گارڈن سے اغوا دو بچوں کو دیکھنے کے لیے ان کے والدین اب تک ترس رہے ہیں۔

معاشرے میں جرم کا ارتکاب ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہوتی، لیکن قانون بننے اور نفاذ کے باوجود تواتر سے بچوں کے اغوا، زیادتی اور قتل کے واقعات ہونا اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ جنگل سے بدتر اور انسان جانور کے مرتبے سے بھی گر چکا ہے، کیونکہ جانور بھی اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے بچے اور بڑے میں فرق کر لیتے ہیں۔ ہر سال اس نوعیت کے ہزاروں کیسز کا رپورٹ ہونا ہمارے نظام قانون پر بھی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے کہ ہمارے قانون میں کچھ سقم ہے، یا پھر متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے، جس کی وجہ سے اس مجرمانہ عمل کی روک تھام نہیں ہوسکی ہے۔

صارم واقعہ کے بعد کراچی پولیس اور غیر سرکاری سماجی تنظیم کا بچوں کے تحفظ کا بیڑا اٹھاتے ہوئے شہری سطح پر عوامی شعور اجاگر کرنے کی مہم چلانے کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے، لیکن یہ واقعات والدین کے لیے بھی الارمنگ ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو حتی الامکان تنہا نہ چھوڑیں اور ان کی ایسی تربیت کریں کہ کوئی انہیں ورغلا اور نقصان نہ پہنچا سکے۔ ایسے واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر رشتے دار، پڑوسی یا جاننے والے بھی ملوث ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے والدین اپنے بچوں کو چچا، ماموں اور دور کے رشتے داروں کے درمیان فرق سے آگاہ کریں اور انہیں بتائیں کہ کس رشتے دار کے ساتھ کتنے فرق سے ملنا ہے۔ انہیں یہ بھی بتائیں کہ صرف انکل کہنے سے کوئی سگا رشتہ نہیں بن جاتا تو کوئی دور کا رشتہ دار یا پڑوسی کی ان سے چھیڑ چھاڑ کی کوئی غیر معمولی حرکت ہو تو فوری والدین کو آگاہ کریں۔ اور ساتھ ہی انہیں ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بولنا اور آواز اٹھانا سکھائیں، جیسا کہ گزشتہ روز کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک بچی نے شور مچا کر اپنے اغوا کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں