پیر, فروری 3, 2025
اشتہار

تہذیبِ گم گشتہ کی کہانی اور عہدِ موجود کے زوال کا بیان۔ مذاقِ خاص

اشتہار

حیرت انگیز

دنیا بھر میں تین ایسے فنون ہیں، جن کو پرفارمنگ آرٹس کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، وہ تھیٹر، موسیقی اور رقص ہیں۔ پاکستان میں موسیقی کو سب سے زیادہ عروج ملا۔رقص تو کسی طور اپنا نام ٹھیک طور سے درج ہی نہ کروا سکا۔ باقی رہ گیا تھیٹر، تو اس فن کے نام پر کچھ کام ہوا، مگر اس تناظر میں ہونے والی تمام کوششیں انفرادی تھیں۔ کسی ادارے کے تحت جو کام ہوا، اس میں صرف دو ادارے "نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس” اور "کراچی آرٹس کونسل” دکھائی دیتے ہیں، جن میں سے اوّل الذکر تو مغربی ڈراما نگاری کے اثر سے تاحال باہر نہیں آسکا، البتہ کراچی آرٹس کونسل نے دیر سے سہی، مگر مقامی تھیٹر پر اپنی توجہ مرکوز کی، جو قابلِ تحسین ہے۔ اس سلسلے میں "عوامی تھیٹر فیسٹیول” تازہ ترین پیشکش ہے، جس میں ہر طرز اور مزاج کے تھیٹر کو جگہ ملی۔ اس ناٹک میلے میں سے ہم نے جس کھیل کا انتخاب کیا، اس کاعنوان”مذاقِ خاص” ہے۔

مرکزی خیال/ مکالمے/ لفظیات

یہ انسانی فطرت ہے، ہم جذباتی طور پر جن مقامات سے جڑے ہوتے ہیں، اس کا موازنہ ضرور کرتے ہیں کہ وہ مقام ماضی میں کیسا تھا اور حال میں کیسا ہے۔ ایسے ہی جذبات کے مد و جزر پر مبنی کھیل "مذاقِ خاص” تھا، جس میں عہدِ حاضر کے کراچی کا ایک معروف مقام "آرام باغ” دکھایا گیا ہے، جو ماضی کی شان دار تہذیب کا نوحہ پیش کررہا ہے۔ وہ عہد جب کراچی تہذیب و تمدن کا مرکز ہوا کرتا تھا، اس وقت اس باغ کا نام "رام باغ” تھا، جو آرام باغ ہو گیا۔ تہذیبِ گم گشتہ کی ایک ان کہی داستان کو مرکزی خیال کے ذریعے تمثیلی تخلیق کر کے پیش کیا گیا۔ یہ ترکیب تو انتہائی عام ہے، مگر اس کو جس خاص انداز سے پیش کیا گیا، وہ متاثر کن ہے۔ اسے ڈراما نویس نے "شہرِ خراب کا رام باغ” پکارا ہے اور یہ بنیادی تصور دیا کہ "تہذیب روایات نہیں رویہ ہے۔”

اس تصور کو مزید بیان کرتے ہوئے جمال مجیب قریشی کہتے ہیں کہ "رام باغ عوام کے لیے کبھی ایک تفریح گاہ تھی، اب ایک اجاڑ ویران باغ ہے۔ شہر کے معیاری نفسیاتی اسپتال سے مریض بھاگ کر اکثر اس سرکاری باغ میں آکر چھپ جاتے ہیں۔ یہ سرکاری تحویل میں ایک ایسا مقام ہے جو ایک ایک گم گشتہ طبقاتی معاشرے کا کھنڈر بھی ہے۔ یہ ایک شکستہ مقام ہے۔ اس کے ہر ذرے پر ایک سوالیہ نشان کندہ ہے۔ اس باغ میں پھیلے سوکھے پتوں کی نیچے ایک آتش فشاں دہک رہا ہے۔ یہ ایک اجاڑ زنداں ہے۔ یہاں رات کے وقت بے چین ارواح کا گزر ہوتا ہے۔”

اس کھیل میں اداکاروں نے جو مکالمے ادا کیے، اور جو خود کلامی (مونو لاگ) تھے، وہ ذو معنی اور شعریت سے لبریز تھے، ادبیت سے بھرپور تھے اور صرف یہی نہیں بلکہ بین السطور بھی ایسے موضوعات تھے، جو آج کے حالاتِ حاضرہ کی منظر کشی کرتے ہیں، یعنی وہ باتیں بیان ہوئیں، جنہیں اب سماج میں کہنے کی کھلے بندوں اجازت نہیں ہے۔ اس باریک کام کو ڈراما نویس جمال مجیب قریشی نے بھرپور طور سے کر دکھایا۔ پھر اس کھیل کی ایک اور شان دار بات اس کی لفظیات ہیں، جس کو سماعت کر کے اور اسٹیج پر مکالموں کی صورت میں دیکھ کر لطف آگیا۔ اس کھیل میں وہ مذاق جو آپ کے ذوق کا عکاس ہوتا تھا، اس کو بھی بیان کیا گیا اور اس مذاق کو بھی، جس کو صرف ہم اڑانا مقصود سمجھتے ہیں۔ اس ناٹک کی کہانی کے بیان میں تہذیب کے زوال کے ساتھ ساتھ جس طرح فکشن کے دو کرداروں کو ملا کر کہانی بیان کی گئی ہے، وہ ترکیب بھی دل کو بھائی ہے۔ایک طرف امتیاز علی تاج کے ڈرامے کی "انار کلی” اور دوسری طرف مرزا ہادی رسوا کے ناول کی امراؤ جان ادا کا امتزاج دکھایا گیا ہے۔

کہانی و کردار

اس ڈرامے کا آغاز ایک صحافی کے کردار "شاہد میر” کے نمودار ہونے سے ہوتا ہے، ( جمال مجیب قریشی) جو صحافی ہے، آرام باغ نامی ایک پارک میں بینچ پر ماضی کی یادوں میں غرق ہے۔ پس منظر میں ایسی موسیقی ہے، جس سے ناسٹیلجیا بڑھ جاتا ہے، ماضی کی تصویریں ایک ایک کر کے ذہن کے پردے پر ابھرنے لگتی ہیں اور اسٹیج پر کرداروں کی صورت میں بھی عہدِ گم گشتہ کے یاد آنے کی شدت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اسی ترتیب میں اگلا دلکش کردار "امراؤ جان ادا” کا ہے (فاطمہ علی بھائی)، جو اپنی اسی سج دھج سے طلوع ہوتا ہے، جو اس کردار کی شان ہے۔ ان دونوں کرداروں کے مکالمات، تاریخی پس منظر، شان دار اور منظوم و غیر منظوم مکالمات کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ یہ عہدِ حاضر ہے، جس کو ماضی اور حال کے کرداروں کے ساتھ ملا کر دکھایا گیا ہے۔

اسکرپٹ کے منظر نامے کی ایک جھلک

ڈرامے کا آغاز استاد بڑے غلام علی خان کی ٹھمری "آجابالم پردیسی”سے شروع ہوتا ہے۔ ایک صدا کار(جمال مجیب قریشی) کی صدا اسٹیج پر اور ہال میں گونجتی ہے کہ "یہ شہر خرابی کا رام باغ ہے، جو اب آرام باغ ہے۔ اور میں ایک جرنلسٹ ہوں۔ آدھا سچ اخبار میں چھپتا ہے اور پورا سچ میں اپنی ڈائری میں لکھتا ہوں۔ میں کہانیاں لکھتا ہوں، مظلوموں کی محرومیاں، زمانے کی ستم ظریفیاں، میرا قلم زخم قلم بند کرتا ہے۔ یہ رام باغ بھی زخموں سے چور ہے۔ کبھی یہاں گل ہی گل تھے اور اب خار ہی خار ہیں۔ کبھی یہاں پیڑوں کی چھاؤں تلے رومیو جولیٹ۔ شیریں فرہاد، لیلی مجنوں، ہیر رانجھا نظر آتے تھے۔ اب یہاں کچرے کا ڈھیر نظرآتا ہے۔ نشے کے عادی افراد اور گداگر نظر آتے ہیں۔ یہ باغ اب ایک باغ کم اور ایک کھنڈر زیادہ ہے۔

کبھی رام باغ کی ایک جھلک دیکھنے بہت سے لوگ آتے تھے، اب یہاں کوئی نہیں آتا۔ اس سیاہ رات میں یہ باغ سسکیاں لے رہا ہے۔ کھنڈر سے بے چین روحوں کی آوازیں میرے تعاقب میں ہیں۔ یہ رات ایک درد بھری رات ہے۔ میں سونا چاہتا ہوں پر مجھے نیند نہیں آتی۔ یادیں مجھے سونے نہیں دیتیں۔ رام باغ کی ایک سہانی یاد آج تک میرے خیالوں میں تازہ ہے۔ وہ رات میں کبھی بھول نہیں پایا۔ کاش وہ رات کبھی پھر سے بسر ہو۔ کاش میری محبت پھر سے میری نظروں کے سامنے آجائے۔ کاش میں پھر سے اظہار محبت کرسکوں۔ "صدا کاری کے ایسے کئی شاہکار تھے، جنہوں نے حاضرین کی سماعتوں کو معطر کیا۔

دیگر کردار اور کہانی کا کلائمکس

ان دو مرکزی کرداروں کے بعد تین مزید کردار اسٹیج پر وارد ہوتے ہیں، جو ہیں حافظ (منان حمید)، ایک پولیس افسر (صابر قریشی) اور ایک دانشور ڈاکٹر عرفان اللہ (شاہد نظامی)۔ ڈاکٹر عرفان اپنی اردو شاعری کی بابت، گفتگو کے دوران معاشرے میں موجود طبقاتی فرق کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ پاگلوں کے ڈاکٹر کے طور پر اس کردار میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ اگلے منظر میں ایک اور تاریخی کردار، انار کلی (کومل ناز) سلیم (جمال مجیب) کے ساتھ محو گفتگو دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی کا کلائمکس اس بات پر ہوتا ہے کہ کون سمجھ دار اور کون پاگل اور عہدِ حاضر کی حالت زار بگڑتے ہوئے کہاں تک آپہنچی ہے اور تہذیب کے نام پر کیا کچھ ہے، جو ہم کھو چکے ہیں۔ کہانی کا دورانیہ مختصر تھا، کردار میں جامعیت تھی اور مکالمے چست تھے، جن میں چومکھی پہلو تھے۔ ایک عرصے بعد اتنی اچھی کہانی کسی منچ پر دیکھنے کو ملی۔

اداکاروں کی اداکاری

اس کھیل میں تمام اداکاروں نے اپنی بساط میں اچھی اداکاری کی، مگر "امراؤ جان ادا” کے کردار میں فاطمہ علی بھائی نے اپنے فن سے حاضرین کو مبہوت کر دیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ان کا پہلا اسٹیج ڈراما تھا، جس میں انہوں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کا کریڈٹ، کھیل کے ہدایت کار نعمان خان کو جاتا ہے، جنہوں نے ان سے اس قدر عمدگی سے کام لیا۔ جمال مجیب قریشی اور کومل ناز نے بھی اپنی اداکاری سے متاثر کیا جب کہ دیگر فن کاروں نے بھی اس رنگین مگر اداس ناٹک میں اپنے اپنے حصے کے رنگ بخوبی بھرے، مگر مزید نکھار پیدا کیا جا سکتا تھا۔

ہدایت کار کی ہدایت کاری

نعمان خان کراچی آرٹس کونسل سے وابستہ اور تھیٹر کے عاشق ہیں۔ انہوں نے اس فن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کی تازہ ترین پیشکش نے عوامی تھیٹر فیسٹیول میں ایسے حاضرین کو چونکا دیا ہے، جنہیں تہذیب و تمدن اور شعر و ادب جیسے موضوعات میں دلچسپی ہے۔ چالیس منٹس کے مختصر دورانیے میں، منچ پر دو ادوار کو پیش کرنا، دو تہذیبوں کا موازنہ اور تجزیہ کرنا ایک باریک اور مشکل کام ہے، جس کو بہت عمدگی سے نعمان خان نے جمال مجیب قریشی کے شان دار اسکرپٹ و صدا کاری کی بدولت نبھایا۔ امید ہے وہ مستقبل میں بھی ایسے کھیل باذوق افراد اور مداحوں کے لیے پیش کرتے رہیں گے۔

آخری بات

یہ ناٹک، کہانی اور لفظیات کے اعتبار سے سب شعبہ جات میں نمایاں رہا۔ اداکاری اور اسٹیج مینجمنٹ میں بھی مزید کام ہو سکتا تھا۔ پورے کھیل میں موسیقی کی صورت میں فلمی رنگ غالب رہا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مجموعی طور پر ہدایت کاری عمدہ اور کہانی نویسی شان دار تھی۔ جمال مجیب قریشی، نعمان خان اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ تھیٹر سے وابستہ اداروں کو چاہیے، اس طرز کے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان جیسے فن کاروں کو مزید مواقع دیں تاکہ ہم مقامی اور حقیقی تھیٹر کو فروغ دے سکیں۔

اہم ترین

خرم سہیل
خرم سہیل
خرّم سہیل صحافی، براڈ کاسٹر، مترجم، اردو زبان میں عالمی سینما کے ممتاز ناقد اور متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں۔ وہ پاکستان جاپان لٹریچرفورم کے بانی بھی ہیں۔ انہیں سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر ان کے نام سے فالو کیا جاسکتا ہے جب کہ بذریعہ ای میل [email protected] بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مزید خبریں