تو کیا ہو ا اگر آج ۔ ۔،
چہرے سے ہنسی غائب ہے
اُلجھا ہوا ہے ذہن میرا،
نیند آنکھوں سے بھی خائف ہے
کہتے ہیں یہ سبھی لوگ مجھے۔ ۔ ،
کہ شاید تمہیں کچھ ’’ایسا‘‘ ہوا ہے
گئیں ہیں جس سے جانیں بہت سی ،
اور نہ دستیاب اس مرض کی
کوئی دوا ہے !
بہت ممکن ہے ۔ ۔،
ہاں ، ہو سکتا ہے یہ بھی
کہ ہو جاﺅں میں،
بالکل تنہا !
منقطع سب ہی سلسلے ہوں ،
محفلوں سے میں ہو جاﺅں منہا
نہ دوستوں میں جا سکوں ،
نہ تازہ کھُلی فضاﺅں میں
نہ تپش سورج کی محسوس ہو
نہ پاﺅں خود کو ،
ٹھنڈی سرد ہواﺅں میں
بس پاس میرے ہوں ،
چند مخصوص دوائیاں
اے کاش اسی خلوت میں ،
مل جائے مجھے رب سائیاں
نہیں ، میں بالکل بھی مایوس نہیں
کیونکہ ابھی حوصلے میرے ،
زندہ ہیں !
ہمّتیں سبھی یکجا ہیں
زندگی کی جستجو میں ،
کچھ خواب ابھی پنہاں ہیں
ہاں بس اب
یہ فیصلہ ہے میرا ،
میں یہ طے کر چُکا ہوں
کہ نہ مانوں گا میں ہار،
ہو چاہے کچھ بھی جائے
دعا ہے اس اندھیری شب کا سویرا ،
اب جلد ہی ہو جائے
(آمین)
شاعرِ امن
کاشف شمیم صدیقی