اشتہار

کرسی کی تاریخ اوّل سے آخر تک….

اشتہار

حیرت انگیز

ایسے سر پھروں کی تعداد کم نہیں جو کرسی سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں، وہ اسے حاصل کرنے کے لیے وقت سے لے کر دولت، بلکہ خون کا آخری قطرہ تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا کرتے۔

دنیا کے بہت سے فرماں رواؤں اور سپہ سالاروں نے کرسی کے لیے بڑی سرفروشیاں کی ہیں۔ عرصہ کار زار کو رنگین کیا ہے۔ خون کی نہریں بہائی ہیں۔ کرسی میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کسی نازک اندام محبوبہ اور اس کے خوبصورت خد و خال میں ہوا کرتی ہیں۔ بیوفائی میں کرسی اس سے بھی آگے ہے۔ کتنا ہی گوند لگا کر بیٹھے اس کی نگاہِ خوں آشام بدل جاتی ہے، تو آدمی کو اس طرح نیچے گرا دیتی ہے کہ سنبھلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے عشق میں خطرناک رقیبوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ لیلائے کرسی کے فریفتہ جب کسی رقیب سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں تو صلح کا امکان نہیں رہتا۔ انھیں سمجھوتے پر یقین نہیں۔ وہ سر ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترا کرتے ہیں۔

ماضی میں کرسیوں کی تعداد اتنی نہ تھی جتنی اب ہے۔ اقسام بھی محدود تھیں۔ صدارت اور ممبری کی چند کرسیاں ہی تھیں جو میونسپل بورڈ اور جلسہ گاہوں میں یوسف بے کارواں کی طرح اکیلی پڑی رہا کرتی تھیں، پھر بھی دل رُبائی کا یہ عالم تھا کہ ان کے حصول میں بڑے ہنگامے ہوا کرتے تھے، دولت لٹائی جاتی تھی، کبھی زمین کو قطراتِ خوں سے لالہ زار بنایا جاتا تھا۔ طالبانِ کرسی میں سے کسی کو خریدنے کی نوبت آجایا کرتی تھی۔ موجودہ زمانے میں کرسیوں کی تعداد اور اقسام میں جتنا اضافہ ہوا ہے، اتنی ہی صفِ عشاق طویل ہوگئی ہے۔ وہ کیو بنائے یوں کھڑے رہتے ہیں کہ کان صدائے تکبیر پر لگے ہوئے ہیں اور آنکھیں اشارۂ ابرو کی منتظر ہیں۔ ذرا آواز فضا میں گونجے اور نمازِ عشق پڑھنا شروع کر دیں۔ کیفیت بالکل وہی ہوتی ہے جس کی عکاسی اس شعر میں کی گئی ہے،

- Advertisement -

باندھ کے صف ہوں سب کھڑے تیغ کے ساتھ سر جھکے
آج تو قتل گاہ میں دھوم سے ہو نمازِ عشق

آج کل وہ روایتی مجنوں پیدا نہیں ہوتے جو ناقۂ لیلیٰ کے ساتھ میلوں دوڑے چلے جایا کرتے تھے۔ ان کی جگہ ایسے دلدادگانِ کرسی عالم وجود میں آرہے ہیں جو اس کی زلفِ گرہ گیر میں اسیر ہوکر بھاگتے نہیں بیٹھنا پسند کرتےہیں۔ اپنی جگہ تڑپتے ہیں۔ رومانی غزلیں کہتے ہیں، کہانیاں لکھتے ہیں، اسی طرح ہجر و فراق کی کڑی منزلیں طے ہوجاتی ہیں اور شربتِ وصل پینے کی مسرت حاصل ہوجاتی ہے۔ تو عالمِ سر خوشی میں کرسی کے علاوہ ہر چیز کو فراموش کردیتے ہیں۔ دن رات اسی کے خالِ رخسار کی پرستش میں مصروف رہتے ہیں۔ دل کی ساخت بدل جاتی ہے۔ خون میں بھی کیمیاوی تغیرات ہوجاتے ہیں۔ سرخی کم ہو کر سفیدی بڑھ جاتی ہے۔ اس حقیقت کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے کہ کرسی کے ان گنت فریفتہ ہیں وہ ان میں سے کسی کو بھی مرکزِ التفات بنا سکتی ہے۔ نئے چہروں کی تلاش کرسی کی تاریخی روایت ہے۔ وہ تو گرفتارانِ بلا پر زیادہ مہربان رہتی ہے۔ ان کے ہجر و فراق کی مصیبتوں پر اسے رحم بھی آجاتا ہے۔ حالانکہ سنگ دلی محبوبیت کا خاص وصف ہے۔ تاہم کبھی معشوق کی نگاہِ مشکل پسندی میں رحم کے جذبات بھی جھلک آجاتے ہیں۔

کرسی کے شیدائی ساری رکاوٹیں دور کر کے چاہتے ہیں کہ جس طرح ہو سکے جلد اس پر قابض ہو جائیں، لیکن وقت اتنا ظالم اور سنگ دل ہے کہ آرزوؤں کے آبگینوں کو توڑ کر ہی دم لیتا ہے۔ ملک میں کروڑوں صاحبانِ دل آباد ہیں، ان کے سینہ میں دھڑکتے ہوئے قلوب کا جائزہ لیا جائے تو سویدائے دل میں جو چنگاری شعلہ بن جانے کی دھن میں چمک رہی ہوگی، وہ کرسی کے اشتیاقِ بے پایاں ہی کی ہوگی، کرسی کا حسن لازوال ہے اس کی کشش مکان و زماں کی پابند نہیں۔ ہر کرسی میں دل ربائی کا وصف نہیں ہوتا۔ گھر میں کتنی ہی نازک اور آراستہ کرسی پر بیٹھ جائیے اس میں جلوہ افروزی کا وہ لطف نہیں ہوگا جو کسی جلسہ کی کرسی صدارت میں ہوا کرتا ہے۔

کرسی کی تاریخ اوّل سے آخر تک بے نیازی اور تغافل شعاری کا دل شکن افسانہ ہے۔ کرسی کی انقلاب انگیز تبدیلیوں کے پیش نظر کرسی نشینوں کو دیدہ وری سے کام لینا چاہیے اور اسے بد لگام گھوڑے کی طرح قابو میں رکھنا چاہیے۔ اس عاشقانہ جذباتی رویّے سے شدید نقصان ہوتا ہے جس میں باگ ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے اور پاؤں رکاب سے نکل جاتے ہیں اور کرسی نشین چیخ اٹھتا ہے کہ

رَو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہیں رکاب میں

(معروف ادیب، افسانہ نگار کوثر چاند پوری کی طنز و مزاح پر مبنی تحریر)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں