منگل, اکتوبر 8, 2024
اشتہار

خالد علیگ: جس نے جبر کے آگے سَر نہیں جھکایا، اور جو بِکا نہیں!

اشتہار

حیرت انگیز

خالد علیگ کا شمار پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ ترقّی پسند شاعر اور سینئر صحافی خالد علیگ 2007ء میں‌ آج ہی کے روز کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ انھیں راست گوئی، اصول پرستی اور ان کے اجلے کردار کی وجہ سے صحافت کی دنیا میں بہت عزّت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ سمیت پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور میں قیام کیا، بعد سندھ کے شہروں میرپور خاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی آگئے جہاں تمام زندگی گزاری۔

خالد علیگ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حرّیت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے جن کے انتقال کے بعد انھیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور 1978ء میں اس اخبار کی بندش تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

- Advertisement -

خالد علیگ نے ترقّی پسند مصنّفین کی تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔ ایوب خان اور جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں آمریت اور فردِ‌ واحد کے فیصلوں کے خلاف انھوں نے صحافیوں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خالد علیگ کی شاعری میں ظلم و جبر سے نفرت، آمریت کی مخالفت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی شاعری جراتِ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔ وہ ایک خود دار انسان تھے جس نے کسی بھی موقع پر سرکاری امداد قبول نہیں کی اور اپنے قلم کو اپنے ضمیر کی آواز پر متحرک رکھا۔ خالد علیگ نے وہی لکھا جو حق اور سچ تھا۔ خالد علیگ نے محنت کش طبقے اور عوام کے لیے شاعری کی اور ساری عمر جدوجہد کرتے ہوئے گزاری۔ وہ کراچی شہر کی ایک بستی لانڈھی میں چھوٹے سے گھر میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے۔ خالد علیگ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اپنی عوامی جدوجہد کے دوران انھوں نے بہت سی تکالیف اور پریشانیاں بھی اٹھائیں مگر اپنی خود داری پر آنچ نہ آنے دی۔ 1988ء میں انھیں حکومت کی جانب سے مالی امداد کے لیے رقم کا چیک بھجوایا گیا تھا، لیکن خالد علیگ نے اسے قبول نہ کیا۔ ایک مرتبہ وہ شدید علالت کے سبب بغرضِ علاج مقامی اسپتال میں داخل تھے اور حکومت نے سرکاری خرچ پر ان کے علاج کا اعلان کیا تو خالد علیگ فوراً اسپتال سے اپنے گھر منتقل ہو گئے۔

خالد علیگ کو پی ڈبلیو ڈی میں بحیثیت سول انجینئر اپنی ملازمت کے دوران سندھ کے مختلف علاقوں میں رہنے کا موقع ملا لیکن 1960ء میں انھوں نے ملازمت ترک کردی اور کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ ملازمت ترک کرنے کا سبب طبقۂ اقتدار کے خلاف اُن کا مزاحمتی اور باغیانہ اظہار اور محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد تھا۔ مارشل لا کے دور میں خالد علیگ کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن اُن کے لہجے اور آہنگ میں بدترین آمریت کے ادوار میں بھی کبھی دھیما پن نہیں آیا۔ اُن کی شاعری میں بھی یہی عنصر ہمیشہ غالب رہا۔ خالد علیگ کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں
مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں