خالدہ حسین معروف فکشن نگار تھیں جن کی تخلیقات سے علامتی، تجریدی، استعاراتی اور وجودی فکر جھلکتی ہے۔ ہر اردگرد کے ماحول سے لی گئی کہانی کو خالدہ حسین نے کمال مہارت سے افسانوں میں ڈھالا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے متصوفانہ رجحان کے بہت سے افسانے لکھے اور تکنیکی سطح پر استعارہ، علامت اور تجرید کا انوکھا امتزاج ہمیں اس قلم کار کے ہاں نظر آتا ہے۔
پاکستان کی معروف افسانہ نگار، ناول نگار اور نقاد خالدہ حسین کا یہ تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ خالدہ حسین نے 18 جولائی 1938ء کو لاہور میں آنکھ کھولی اور ان کا بچپن ادبی اور پڑھے لکھے ماحول میں گزرا۔ خالدہ حسین نے میٹرک کا امتحان لیڈی میکلگن اسکول لاہور سے پاس کیا۔ ایف اے اور بی اے کے امتحانات لاہور کالج برائے خواتین سے پاس کیے۔ 1962ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کا امتحان پاس کیا۔
خالدہ حسین نے جب 1956ء میں لکھنا شروع کیا تو ان کے ہم عصروں میں انتظار حسین، انور سجاد، ذکاء الرحمن، سریندر پرکاش، رشید امجد اور بلراج منرا و دیگر بڑے نام شامل تھے۔ خالدہ حسین کو اردو افسانے کا ایک نمایاں نام تو سمجھا جاتا ہے مگر وہ خود کو دیگر اہل قلم کی طرح منظر عام پر آکر منوانے سے گریزاں رہیں۔ خالدہ حسین کے والد شاعری کے دلدادہ اور ادبی نثر کے بھی رسیا تھے۔ ان کی بڑی بہن پنجاب پبلک لائبریری کی رکن تھیں۔ وہ انہیں ساتھ لے جاتیں جس کی بدولت ان کا ادبی ذوق مزید پروان چڑھا۔ وہ ابتدا میں مختلف قلمی ناموں سے لکھتی رہیں، جس میں خالدہ اصغر اور خالدہ اقبال شامل ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ ’’نغموں کی طنابیں ٹوٹ گئیں‘‘ 1956ء کو ادبی جریدے ’’قندیل‘‘ میں شائع ہوا۔ جس کو ادبی و افسانوی دنیا میں خاصی پذیرائی ملی۔ دوسرا افسانہ ’’ادب لطیف‘‘ میں 1960ء میں شائع ہوا۔ جس کے بعد انہوں نے مسلسل افسانے تخلیق کیے۔ ان کی کہانیوں میں عورت کے دکھ درد حقوق و فرائض، معاشرے میں اس کے ساتھ ناروا رکھے جانے والے سلوک اور اس کی بے بسی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان کے علامتی اور تجریدی افسانوں میں تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی بربادی، افرا تفری اور جانی و مالی نقصان کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
معروف فکشن نگار خالدہ حسین کی تخلیقات میں ایک ناول ’’کاغذی گھاٹ‘‘ اور چھ افسانوی مجموعے ہیں۔ افسانوی مجموعہ ’’پہچان‘‘ میں 17 افسانے شامل ہیں۔ ’’ہیں خواب میں ہنوز‘‘ 20 افسانوں اور ایک ترجمے پر مشتمل ہے۔ ’’جینے کی پابندی‘‘ میں 18 افسانے اور 2 تراجم شامل کیے گئے ہیں۔ اسی طرح خالدہ حسین نے چند ڈرامے بھی لکھے اور تراجم کے ساتھ ترتیب و تالیف میں بھی حصہ لیا۔
حکومت پاکستان نے خالدہ حسین کو ’’تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا تھا۔ 11 جنوری 2019ء کو اسلام آباد میں وفات پانے والی خالدہ حسین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جس پذیرائی اور داد کی مستحق تھیں، اس سے محروم رہیں۔