پیر, جنوری 27, 2025
اشتہار

آرزو: اردو کے عظیم اور استاد شعراء کے استاد کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

استاد شعراء کے استاد، اردو اور فارسی زبانوں کے زبردست عالم، شاعر، ماہر لسانیات، نقّاد، فرہنگ نگار اور تذکرہ نویس سراج الدین علی خان آرزو کو دنیا سے رخصت ہوئے ڈھائی سو سال سے زائدعرصہ گزر چکا ہے۔

محمد حسین آزاد جیسے انشاء پرداز نے آرزو کے بارے میں لکھا، ’’خان آرزو کو اردو پر وہی دعوی پہنچتا ہے جوکہ ارسطو کو فلسفہ اور منطق پر ہے۔ جب تک کہ کُل منطقی ارسطو کے عیال کہلائیں گے تب تک اہلِ اردو خان آرزو کے عیال کہلاتے رہیں گے۔‘‘ اسی طرح مثنوی سحرالبیان کے مصنف میر حسن نے اپنے تذکرے میں کہا ہے کہ امیر خسرو کے بعد آرزو جیسا صاحبِ کمال شخص ہندوستان میں نہیں پیدا ہوا۔ خان آرزو کی صحبت اور تربیت سے مظہر جان جاناں، میر تقی میر، محمد رفیع سودا اور میر درد جیسے شعراء نے راہ نمائی حاصل کی۔ سودا خان آرزو کے شاگرد نہیں تھے مگر ان کی صحبت سے بہت فائدے حاصل کیے۔ یہ وہی خان آرزو ہیں‌ جو میر تقی میر کے سوتیلے ماموں تھے اور والد کے انتقال کے بعد کچھ دن میر نے آرزو کے پاس گزارے تھے۔ خان آرزو بنیادی طور پر فارسی کے عالم اور شاعر تھے۔ انھوں نے اردو میں کوئی دیوان نہیں چھوڑا۔ ان کے اشعار تذکروں میں ملتے ہیں جن کی تعداد زیادہ نہیں لیکن جو بھی کلام دستیاب ہے وہ اردو شاعری کے ارتقاء کو سمجھنے کے حوالہ سے ایک تاریخی دستاویز ہے۔ آرزو کے دور میں فارسی کو اہمیت دی جاتی تھی اور اردو میں شاعری کو کم تر خیال کیا جاتا تھا، لیکن آرزو نے اپنے دور میں خدمت اس طرح‌ کی کہ اپنے شاگردوں کو اس زبان میں شاعری پر آمادہ کیا اور اس زبان کا وقار بڑھایا۔

آرزو کا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ہندوستانی زبان کی لسانی تحقیق کی بنیاد رکھی اور جرمن مستشرقین سے بہت پہلے بتایا کہ سنسکرت اور فارسی ہم رشتہ زبانیں ہیں۔ آرزو پہلے شخص تھے جنھوں نے دہلی میں بولی جانے والی کھڑی بولی کو اردو کا نام دیا۔ ان کے زمانہ تک اردو کا مطلب لشکر تھا۔ شاہجہاں آباد کو بھی لشکر کہا جاتا تھا۔ زبان اردو سے فارسی بھی مراد لی جاتی تھی۔ خان آرزو نے پہلی بار نوادر الالفاظ میں، اس بولی کے لیے جو دہلی میں بولی جاتی تھی لفظ اردو استعمال کیا۔

- Advertisement -

نوادرالالفاظ میرعبدالواسع ہانسوی کی "غرائب الغات” کا اصلاح شدہ ایڈیشن ہے۔ غرائب الغات غیر اردو دانوں کے لئے اک اردوفارسی لغت ہے۔

سراج الدین علی خاں آرزو 1686 میں گوالیار میں پیدا ہوئے۔ بچپن گوالیار ہی میں گزرا۔ جوانی میں وہ آگرہ چلے گئے۔ کچھ عرصہ آگرہ میں رہنے کے بعد دہلی منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ گزارا۔ انھوں نے بارہ بادشاہوں کا زوال دیکھا۔ دہلی میں ان کو علمی اور دنیاوی ترقی ملی۔ آرزو محمد شاہ کے دربار کے اہم منصب دار تھے۔ عمر کے آخری حصہ میں وہ فیض آباد چلے گئے اور وہیں آج کے روز 1756ء میں ان کا انتقال ہوا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں