پیر, جولائی 1, 2024
اشتہار

آپریشن عزمِ استحکام فوج نہیں حکومت کی ضرورت ہے، خواجہ آصف

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ آپریشن عزمِ استحکام فوج نہیں حکومت کی ضرورت ہے، آپریشن سے چینی منصوبوں کو سیکیورٹی تھریٹ پر بھی قابو پایا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے بی بی سی کو انٹرویو میں افغانستان کی سرحدی حدود کے اندر پاکستان کی جانب سے کی گئی فوجی کارروائیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ بالکل ہم نے ان کی سرحد کے اندر کارروائیاں کی ہیں کیونکہ ان کی سرزمین سے لوگ آ کر یہاں پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں، تو ہم نے انہیں کیک، پیسٹری تو نہیں کھلانی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ایسی کارروائیوں میں حملہ آوروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ کہ پاکستان مستقبل میں بھی یہ عمل جاری رکھے گا۔

- Advertisement -

اس سوال پر کہ عالمی سرحدی قوانین کے مطابق کیا پاکستان افغان حکومت کو ایسی کسی بھی کارروائی سے پہلے اطلاع دیتا ہے؟ تو وزیر دفاع نے کہا کہ ’ایسا نہیں کیا جاتا، کیونکہ اس سے سرپرائز کا عنصر ختم ہو جائے گا، ہم انھیں یہ نہیں بتا سکتے کہ ہم آ رہے ہیں، آپ تیاری کر لیں۔‘

وزیر دفاع نے بتایا کہ چین کی طرف پاکستان پر یہ آپریشن شروع کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں، ان کا یہ دباؤ ضرور ہے کہ وہ یہاں اپنی سرمایہ کاری دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں، سی پیک ٹو کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کے سکیورٹی سے متعلق خدشات ہیں۔ انھیں اچھا لگے گا کہ پورا پاکستان محفوظ ہو، مگر فی الحال وہ چاہتے ہیں کہ جہاں جہاں ان کے لوگ ہیں، اور ان کا کام ہے، وہ محفوظ ہوں۔‘

اس سوال پر کہ کیا اس آپریشن کے ذریعے چینی منصوبوں کو سیکیورٹی تھریٹ پر بھی قابو پایا جائے گا؟ خواجہ آصف نے کہا کہ آپریشن عزمِ استحکام فوج نہیں حکومت کی ضرورت ہے، ’چینی منصوبوں کو سیکیورٹی تھریٹ پر بھی قابو پایا جائے گا مگر اس فوجی آپریشن کا مقصد عام پاکستانی شہریوں کو تحفظ دینا ہے۔‘ چین کے پاکستان میں سی پیک منصوبے سے جڑے حملوں میں بلوچستان سے علیحدگی پسند تحریکوں اور عسکریت پسند تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔

اس سوال پر کہ کیا بلوچستان میں ان تنظیموں سے بھی بات چیت کے دروازے کھولے جائیں گے؟ تو انھوں نے کہا کہ ’اگر وہ پاکستان کے فولڈ میں آنا چاہتے ہیں، اور بین الاقوامی کوہیژن کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو کیوں نہیں۔ ہم بالکل ان سے بات کرنے کو تیار ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ طالبان سے بات چیت کے بعد ان کے چار سے پانچ ہزار لوگوں کو واپس لانے کا تجربہ ناکام ہوا اور ’طالبان کے وہ ساتھی جو افغانستان سے کاروائیاں کر رہے تھے انھیں پاکستان میں پناہ گاہیں مل گئیں، اب وہ آتے ہیں، ان کے گھروں میں رہتے ہیں اور پھر کارروائیاں کرتے ہیں۔‘

وفاقی وزیر نے بتایا کہ جن کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں، ان میں واپس آنے والے طالبان جنگجو بھی شامل ہیں، اس معاملے پر پہلی باقاعدہ بحث ایپکس کمیٹی میں ہوئی جہاں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، سینیئر بیورکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ موجود تھے، ’سب کے نمائندے تھے، پھر کابینہ میں معاملہ آیا، وہاں بھی سب لوگ تھے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ایپکس کمیٹی کی میٹنگ میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلی نے ’کسی قسم کا اختلاف نہیں کیا۔ ’ہو سکتا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں