بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

یاد نگاری: مایہ ناز موسیقار خواجہ خورشید انور

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان اور ہندوستان میں موسیقی، گلوکاری اور فلم بینی کا شوق رکھنے والے خواجہ خورشید انور کے نام اور مقام و مرتبے سے بھی واقف ہیں۔ موسیقار کی حیثیت سے خواجہ خورشید انور نے کئی شعرا کے تحریر گیتوں کو لافانی اور یادگار بنایا۔ یہ نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں‌۔

آج برصغیر کے عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی ہے۔ خواجہ خورشید فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق تھے اور ادب سے بہت لگاؤ تھا۔ فلسفہ وہ مضمون تھا جس میں خواجہ صاحب نے ایم اے کرنے کے بعد 1936ء میں انڈین سول سروس کا تحریری امتحان دیا اور شان دار کام یابی حاصل کی، مگر انگریز سرکار کے ملازم نہیں بن سکے بلکہ انھیں قیدی بننا پڑا، کیوں کہ اُس وقت خواجہ صاحب ہندوستان کی انقلابی تنظیم کے رکن بھی تھے۔ یہ ان کے کالج کے ابتدائی زمانے کی بات ہے جب انقلابی تنظیم کے راہ نما بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں کو لاہور کی جیل میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کا انتظار تھا اور خواجہ صاحب بھی تنظیم کا رکن ہونے کی وجہ سے جیل بھیجے گئے، لیکن جلد ہی رہائی مل گئی، تاہم انھیں انڈین سول سروس میں جگہ نہیں دی گئی۔

خواجہ خورشید انور موسیقار ہی نہیں ایک کام یاب تمثیل نگار، اور ہدایت کار بھی تھے۔ اگر ان چند گیتوں کی بات کی جائے جو آج بھی مقبول ہیں تو ان میں مہدی حسن کی آواز میں ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کا گایا ہوا نغمہ ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی دوسرے گیت شامل ہیں۔

- Advertisement -

30 اکتوبر 1984ء کو وفات پانے والے خواجہ خورشید انور نے 21 مارچ 1912 میں پنجاب کے مشہور شہر میانوالی میں آنکھ کھولی تھی۔ اُن کے والد خواجہ فیروز الدین ایک مشہور وکیل تھے۔ خواجہ صاحب نے بھی اعلیٰ‌ تعلیمی مدارج طے کیے اور فن کی دنیا میں ان کی باقاعدہ تربیت استاد توکل حسین خان صاحب نے کی۔

موسیقار خواجہ خورشید انور کے فنی سفر کا آغاز 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوا، لیکن ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں پہلی فلم 1941 میں اس وقت کے بمبئی سے ریلیز ہوئی تھی۔ 1953 میں خواجہ صاحب بمبئی سے لاہور منتقل ہوگئے اور مجموعی طور پر اٹھارہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار، ہیر رانجھا اور کویل جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔ خواجہ خورشید انور نے بطور ہدایت کار ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ جیسی فلمیں بنائیں اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

1955ء میں فلم انتظار کے لیے انھیں بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فلمی دنیا نے انھیں نگار ایوارڈ دیا اور پھر حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز کے حق دار ٹھہرے۔

موسیقار وزیر افضل خواجہ صاحب کے باقاعدہ شاگرد تھے اور ان کے کام میں خواجہ صاحب کے فن اور تربیت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ وزیر افضل (مرحوم) کہتے تھے کہ خواجہ صاحب سے زیادہ مشرقی کلاسیکی موسیقی کا ادراک شاید ہی کسی اور فلمی موسیقار کو ہو۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں