اے آر وائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ ’خدا میرا بھی ہے‘ جہاں ایک طرف تو ناظرین میں بے حد مقبول ہورہا ہے وہیں وہ ہمارے معاشرے کے کئی تلخ پہلوؤں کی عکاسی بھی کر رہا ہے۔
ڈرامے کی کہانی ایک ایسے جوڑے (عائشہ خان اور جبران سید) کی ہے جن کے یہاں تیسری جنس کا بچہ پیدا ہوجاتا ہے جس کے بعد تمام لوگ اس بچے کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
ان دونوں کو شدید قسم کے معاشرتی دباؤ کا سامنا ہے۔ ایک منظر میں عائشہ خان کی ساس کا کردار ادا کرنے والی اسریٰ غزل چیختی نظر آئیں، ’ہماری بہو نے ہیجڑا پیدا کیا ہے‘۔
ایک ایسے حساس موضوع پر، جسے معاشرے کا حصہ ہونے کے باوجود اس پر گفتگو کرنا شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہو، ڈرامہ پیش کرنا نہایت بہادرانہ اقدام ہے۔
جیسے جیسے ڈرامے کی کہانی آگے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے ناظرین اس پہلو کے بارے میں مختلف سوالات سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ڈرامے کے ایک منظر میں ایک ماں اور اس کے اسپیشل بچے کو دکھایا گیا جو نہایت محبت سے اس کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ عائشہ خان کے دریافت کرنے پر وہ بتاتی ہے کہ اس کے بچے کی پیدائش سے قبل ہی ڈاکٹرز نے اسے آگاہ کردیا تھا کہ ان کے گھر معذور بچہ پیدا ہوگا اور وہ چاہیں تو اسے دنیا میں آنے ہی نہ دیں۔
اس کی پیدائش کے بعد بھی، بقول خاتون اس کے شوہر اور سسرال والے اس پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسے اسپیشل بچوں کے کسی ادارے میں داخل کروا دے۔ ’آپ خود ہی بتائیں، اپنے بچے کا گلہ گھونٹ کر مجھے کیسے سکون کی نیند آسکتی تھی؟ جو دیکھ بھال ایک ماں اپنے بچے کی کرسکتی ہے وہ کوئی سینٹر کیسے کر سکتا ہے‘۔
اس موقع پر ناظرین کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ایک اسپیشل بچے کو پالنے، اس کی دیکھ بھال کرنے اور اسے اپنانے میں کوئی قباحت نہیں، تو ایک تیسری جنس کا بچہ کیوں ناقابل قبول ہے؟ آخر وہ بھی تو ایک اسپیشل قسم ہے جو بہت نایاب ہے۔
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ تمام تر دباؤ کے بعد مجبور ہو کر ماہی اپنے بچے کو مخنثوں کے حوالے تو کر دیتی ہے لیکن اس کی محبت سے مجبور ہو کر وہ اسے واپس لینے پہنچ جاتی ہے۔
اس موقع پر گرو نہایت جذباتی مکالموں اور دیوانہ وار رقص کے ذریعہ ہمارے معاشرے کے سیاہ پہلو کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’میں نے یہاں ہمیشہ بچے آتے ہی دیکھے ہیں، جاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھے‘۔
ٹوئٹر پر بھی صارفین نے اس ڈرامے کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔
Sorry but 140 words just were enough for such a deep topic #khudamerabhihai pic.twitter.com/1ihXhUTyVj
— Alishah Haider (@alishahnoreen21) November 27, 2016
Kissed my kids twenty thousand times after this last episode of #KhudaMeraBhiHai
— Mahwash Ajaz (@mahwashajaz_) November 19, 2016
#KhudaMeraBhiHai another play that addresses a grave issue good job @arydigitalasia
— SKay (@SammKhan22) November 26, 2016
Painful but realistic story of #KhudaMeraBhiHai….@Aishakhanrao ur acting is superb in this serial…
— Areesha (@Laughingcloud30) November 26, 2016
ایک صارف نے اس حساس موضوع کو اس کی تمام تر حساسیت کے ساتھ پیش کرنے پر بے حد سراہا۔
An extremely sensitive social subject is being tackled sensitively by #khudamerabhihai performance of a lifetime by Ayesha Khan
— Areesha (@Laughingcloud30) November 26, 2016
دوسری جانب معروف اداکار حمزہ علی عباسی نے بھی ڈرامے کے موضوع کو سراہتے ہوئے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں بات کی۔
By far the MOST important episode of #khudamerabhihai will be airing tomo at 8 pm on ARY digital. Its a must watch!@Jerjees pic.twitter.com/xMi74OfKQy
— Aisha Khan(Ayesha) (@Aishakhanrao) November 11, 2016
ڈرامے میں عائشہ خان کی اداکاری کو بھی بے حد پسند کیا جارہا ہے۔
Love Mahi’s character #khudamerabhihai
— m (@nutellaluvin) November 15, 2016
What classy acting by Ayesha Khan and Jibran. #khudamerabhihai @arydigitalasia #pakistan
— Rabia Effendi (@RabiaEffendi) November 19, 2016
عائشہ خان ایک منجھی ہوئی اداکارہ ہیں اور ایک طویل عرصہ سے ڈرامہ انڈسٹری کا حصہ ہیں، تاہم خدا میرا بھی ہے میں ان کی اداکاری کو ان کے کیریئر کا بہترین حصہ قرار دیا جارہا ہے۔