محمد حیدر خاں کا تعلق بارہ بنکی (اودھ) سے تھا، اور اسی نسبت سے اپنے تخلص خمار کے ساتھ بارہ بنکوی لگایا۔ دنیائے ادب میں انھیں خمار بارہ بنکوی کے نام سے شناخت کیا گیا اور فنِ شاعری میں مقبول ہوئے۔
اردو زبان کے اس نام ور شاعر نے پندرہ، سولہ برس کی عمر سے شاعری کا آغاز کیا تھا۔ مشاعروں میں ان کا ترنم بہت مشہور تھا۔ خمار نے فلمی نغمات بھی لکھے اور ان کا کلام بہت مقبول ہوا۔
خمار بارہ بنکوی کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے۔
اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھیے
دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھیے
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھیے
آغازِ عاشقی کا مزا آپ جانیے
انجامِ عاشقی کا مزا ہم سے پوچھیے
جلتے دیوں میں جلتے گھروں جیسی ضو کہاں
سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھیے
وہ جان ہی گئے کہ ہمیں ان سے پیار ہے
آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھیے
ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپ کی طرح
ہنسیے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھیے
ہم توبہ کر کے مر گئے بے موت اے خمارؔ
توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھیے