تقسیمِ ہند سے قبل ناطق فلموں کا سلسلہ شروع ہوا تو کلکتہ، ممبئی اور لاہور کے فلمی مراکز نے کئی نئے چہرے بھی متعارف کروائے جن میں سے بعض کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور انھیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں پہچان مل گئی۔ خورشید بانو ایک گلوکارہ اور اداکارہ کے طور پر اسی زمانے میں مشہور ہوئیں۔
تقسیم کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آجانے سے پہلے خورشید بانو نے 1930ء سے 1940ء تک تیس سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔ انھوں نے بطور گلوکارہ اپنی شناخت بنانے کے دوران چند فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ فلمی ریکارڈ کے مطابق لیلٰی مجنوں خورشید کی پہلی فلم تھی۔ ان کو شہرت فلم تان سین سے ملی تھی جو 1943ء میں ریلیز ہوئی اور جس میں خورشید بانو نے کندن لال سہگل جیسے نام ور گلوکار اور اداکار کے ساتھ کام کیا تھا۔ اس فلم کے کئی گانے بہت مشہور ہوئے اور یہ انہی دونوں فن کاروں کی آواز میں تھے۔
خورشید پنجاب کے ضلع قصور کے ایک دیہاتی گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا اصل نام ارشاد بیگم تھا۔ خورشید بانو نے فلم کے لیے گلوکاری کا آغاز کیا تو سب سے پہلی فلم لیلٰی مجنوں تھی۔ اس کے بعد اگلے دس سال میں ان کی فلمیں مفلس عاشق، نقلی ڈاکٹر، مرزا صاحباں، کمیا گر، ایمان فروش اور ستارہ تھیں۔ تاہم خورشید بانو کو قابل ذکر کام یابی ان فلموں کی بدولت نہ مل سکی۔ 1931ء سے 1942ء کے دوران انھوں نے کلکتہ اور لاہور کے اسٹوڈیوز کی بنائی ہوئی فلموں میں کام کیا۔ ان کے عروج کا آغاز بمبئی منتقل ہونے کے بعد ہوا۔ تان سین وہ فلم تھی جس نے باکمال گلوکاروں کے ساتھ خورشید بانو کو ان کے فن کی داد دلوائی۔
پاکستان آنے سے قبل خورشید بانو نے ہندوستان میں آخری فلم پپیہا رے کی تھی جو 1948ء کی ایک ہٹ فلم تھی۔ اسی برس خورشید اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آ گئیں اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ خورشید بانو نے دو شادیاں کی تھیں۔
1956ء میں انھوں نے دو فلموں فن کار اور منڈی میں کام کیا۔ منڈی وہ فلم تھی جس میں خورشید بانو کی آواز اور موسیقار رفیق غزنوی کی دھنوں کو بہت سراہا گیا لیکن فلم باکس آفس پر کام یاب نہیں ہو سکی۔ ان کی دوسری فلم بھی بدقسمتی سے ناکام ثابت ہوئی۔ وہ 18 اپریل 2001ء میں انتقال کرگئی تھیں۔