خوشی کیا ہے؟
اس موضوع پر ہزاروں برس سے گفتگو ہو رہی ہے اور ہر دور میں اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کتنے ہی لکھنے والے خوشی کے موضوع پر کئی کئی صفحات کے مضامین لکھنے اور کئی گھنٹے بات کرنے کے باوجود یہ بتانے میں ناکام ہوجاتے ہیں کہ خوشی کیا ہے۔
وہ یہ تو بتاتے ہیں کہ خوش کیسے رہا جائے لیکن خوشی کی وضاحت نہیں کرتے۔ میں نے خوشی کے متعلق سیکڑوں کتابیں اور مضامین پڑھنے، بے شمار ویڈیوز دیکھنے اور درجنوں ماہرین سے بات کرنے کے بعد خوشی کی اتنی جامع تعریف جان لی ہے کہ میری زندگی، میرے سوچنے کا انداز بدل گیا ہے۔ ایک چھوٹا سا جملہ میرے ذہن میں اس طرح گردش کرتا ہے کہ روح تک سرشار ہوجاتی ہے۔
میں چاہوں گا کہ یہ جملہ آپ کی سماعتوں میں بھی رچ بس جائے۔ اس کی گونج ہر وقت سنائی دیتی رہے۔ پوری کتاب پڑھنے اور ہر مشق کے دوران صرف یہ ایک جملہ آپ کا ذہن ذرخیز رکھے گا۔ وہ جملہ کیا ہے:
Happiness is celebrating the blessings you have.
موجودہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا نام خوشی ہے۔
خوشی اور شکر گزاری میں واضح فرق ہے۔ شکر گزاری اس بات کا ادراک ہے کہ مجھے جو بھی نعمت ملی ہے اس پر میرا حق نہیں ہے بلکہ عطا ہے۔ جسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ not feeling entitled یعنی جو کچھ ملا ہے وہ میرا حق نہیں تھا۔ جب کہ نعمتوں کا ادراک ہونے کے بعد ان سے لطف اندوز ہونے کا نام "خوشی” ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے سامنے گرما گرم لذیز کھانا پیش کیا جائے، آپ شکر ادا کریں، لیکن بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہوئے یا بے دھیانی میں کھا لیں۔ آپ نعمت ہونے کے باوجود خوش نہیں ہوسکیں گے۔
یہی کچھ ہم اولاد کے معاملے میں کرتے ہیں۔ یہ مانتے ہیں کہ اولاد اللہ کا انمول تحفہ ہے لیکن ان کی معصوم باتوں، بے ضرر غلطیوں اور حیران کن سوالوں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے یا تو نظر انداز کرتے ہیں یا غصہ۔ کسی حد تک ناشکری اور بہت حد تک ناخوشی۔ اور یہ عمل زندگی کے ہر معاملے میں ظاہر ہوتا ہے۔
قوتِ سماعت اللہ نے دی ہے۔ اس بات کا ادراک شکر گزاری ہے لیکن جو کچھ سن رہے ہیں، رُک کر ان سے لطف اندوز ہونا خوشی ہے۔ اسی طرح زبان اللہ کی نعمت ہے، یہ ماننا شکر گزاری ہے لیکن کچھ بھی کھاتے یا پیتے ہوئے مکمل طور پر اس سے لطف اندوز ہونا خوشی ہے۔ آنکھیں اللہ کی حیرت انگیز نعمت ہیں، یہ احساس شکر گزاری ہے، لیکن ان آنکھوں سے بچوں کو بھاگتے، باتیں کرتے، کھیلتے دیکھ کر لطف اندوز ہونا یا دیگر نعمتوں کو سراہنا خوشی ہے۔
شکر گزاری ایک درخت کی مانند ہے اور خوشی اس کا پھل ہے۔ ہم درخت کے سائے میں اطمینان محسوس کرتے ہیں، جس کے لیے شعوری احساس ضروری نہیں۔ لیکن اس درخت کے پھل سے لطف اندوز ہوئے بغیر آپ اس درخت سے مکمل یا حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
خوشی، غم اور سوچ
ہر انسان کی زندگی میں اچھے تجربات بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو یہ تجربات اور واقعات اچھے یا برے نہیں ہوتے، نیوٹرل ہوتے ہیں۔ ہماری سوچ کا انداز انہیں مثبت یا منفی بناتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہمارے کسی عزیز کا انتقال ہوجائے تو ہم غم زدہ ہوجاتے ہیں، کئی کئی دن سوگ میں رہتے ہیں، جب بھی اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں، دل بھر آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی کے مرنے پر رونا ایک فطری بات ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں تو غلط سمجھتے ہیں۔ دنیا میں ایسے متعدد قبائل ہیں جہاں انتقال پر رونے کے بجائے جشن منایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر راجستھان میں ستیا نامی خانہ بدوشوں کے ایک خاندان میں جب کوئی مرتا ہے تو خوشیاں منائی جاتی ہیں، نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں، مٹھائیاں اور شراب تقسیم کی جاتی ہے، یہی نہیں خوب ناچ گانا بھی ہوتا ہے۔
دنیا میں کچھ قبائل اس لیے بھی خوش ہوتے ہیں کہ مرنے والے کا ایک درجہ بلند ہوگیا اور وہ اپنے خالق سے مل گیا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ جو ہوتا ہے، اس میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے لہٰذا االلہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں۔ اس طرح کی سوچ رکھنے والے کوئی بھی واقعہ یاد کر کے افسردہ اور پریشان ہونے کے بجائے، خوش ہوتے ہیں۔
یہ معاملہ صرف موت تک ہی محدود نہیں، جہاں کچھ لوگ کاروبار میں نقصان ہونے کی صورت میں خودکشی کرلیتے ہیں تو کچھ ایک مرتبہ پھر جوش و جذبے کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور پہلے سے سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرلیتے ہیں۔
اسی طرح کچھ لوگ ایک یا چند ناکامیوں کے وجہ سے خود پر ناکامی کا لیبل لگا لیتے ہیں اور تمام عمر انہیں اپنی پہچان سمجھ کر ناکام زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ ہر ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر نئے جوش و جذبے کے ساتھ کامیابی کی امید لے کر خوشی خوشی سفر شروع کر دیتے ہیں۔
اس تمام گفتگوکا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی واقعے پر افسردہ، پریشان، پُرامید یا خوش ہونے کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم کس طرح سوچنے کے عادی ہیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھنے اور اپنے تمام مسائل میں درست طرزِ فکر رکھنے والے ہی مشکلات پر باآسانی قابو پاسکتے ہیں۔ ان لوگوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ماضی کے واقعات یاد کر کے اپنا حال اور مستقبل خراب نہیں کرتے۔
آج آپ ماضی کے وہ واقعات یاد کریں جو ہمیشہ ہی آپ کے لیے اذیت کا باعث بنتے رہے ہیں۔ ہر ہر واقعے کے لیے اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ اگر یہ واقعات رونما نہ ہوتے تو آپ نہ تو انسانی کمزوریوں کو سمجھ پاتے اور نہ ہی اللہ سے تعلق مضبوط کر پاتے۔
(محمد زبیر شکریہ، پرورش اور تربیت کے مصنف، لائف کوچ اور نامور یوٹیوبر ہیں)