ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا کہ یورپ، کینیڈا اور وسطی ایشیائی ممالک میں بچے پہلے کے مقابلے میں خاندان کی کم حمایت کم اور اسکول کا زیادہ دباؤ محسوس کرتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے ان تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ نو عمر بچوں کے سماجی اور تعلیمی ماحول کو بہتر سے بہتر بنائیں۔
تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے تعلیمی ادارے میں پڑھائیں تاکہ ان کا بچہ قابل و با شعور بن سکے لیکن بعض اوقات اسکولوں میں بڑھتے ہوئے تعلیمی دباؤ کے باعث بچے مختلف امراض اور مسائل کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق سال 2022 میں نوجوانوں میں سے 73 فیصد طلباء کو خاندانی معاونت حاصل تھی جبکہ 2018 میں یہ تناسب 67 فیصد تک کم ہوگیا جبکہ لڑکیوں میں یہ کمی اور زیادہ نمایاں ہوئی ہے جو کہ 72 سے کم ہوکر 64 فیصد تک آگئی۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق طلباء و طالبات میں تعلیمی دباؤ کی شکایات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سال2022 میں تقریباً دو تہائی (63 فیصد) 15 سالہ لڑکیوں نے بتایا کہ وہ اسکول کے کام کے دباؤ کو محسوس کرتی ہیں جو 2018میں 54 فیصد تھا، جبکہ لڑکوں میں یہ شرح 43 فیصد ہوگئی جو کہ پہلے 40 فیصد تھی۔
اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او یورپ کے علاقائی ڈائریکٹر ہانس کلوج نے اپنے بیان میں کہا کہ آج کے نوجوان اپنے سماجی ماحول میں بے شمار چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، انہیں اپنے گھر میں مدد یا تعاون میں کمی اور اسکول میں تعلیمی دباؤ میں اضافے کا سامنا ہے جو ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق جن بچوں کو اپنے اہل خانہ کا مکمل تعاون حمایت اور مدد حاصل ہوتی ہے وہ زیادہ ترخوشحال یا امیر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی ذہنی صحت ان بچوں کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہے جنہیں محدود یا کوئی مالی اور خاندانی مدد نہیں ملتی۔
رپورٹ کی مصنفین میں سے ایک ایرین گارسیا مویا کا کہنا ہے کہ لڑکیاں اکثر تعلیمی کامیابی اور سماجی تقاضوں کے درمیان پھنس جاتی ہیں جبکہ لڑکوں پر خود کو مضبوط اور پُراعتماد ظاہر کرنے کا دباؤ ہوتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ نوجوانوں کی مدد اور تعاون کے لئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے، جس میں ’صنفی فرق‘ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے مزید کہا کہ اسکولوں کا ماحول زیادہ بہتر جامع بنانے کے لیے کلاس کے سائز کو کم کیا جانا چاہیے اور بچوں کی دلچسپی کیلئے مینٹور شپ پروگرامز منعقد کیے جائیں۔
اس کے علاوہ حکومتوں کو کم آمدنی والے خاندانوں کے لئے ہر ممکن مالی مدد فراہم کرنی چاہئے تاکہ والدین اپنے بچوں، خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کی بہتر انداز میں مدد کرسکیں۔
نوٹ : زیر نظر مذکورہ مطالعہ جسے ڈبلیو ایچ او نے پیش کیا ہے، اس میں یورپ، کینیڈا اور وسطی ایشیا کے 44 ممالک کے 11، 13 اور 15 سال کی عمر کے تقریباً 2 لاکھ 80 ہزار نوجوانوں کا سروے کیا گیا۔