تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

کنگ جان اور میگنا کارٹا

’میگنا کارٹا‘ لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب عظیم عہد ہے۔

برطانوی بادشاہ جان نے 1215ء میں آزادی اور سیاسی حقوق کا جو معاہدہ باغی جاگیرداروں سے کیا تھا، اسے دنیا میگنا کارٹا کے نام سے جانتی ہے۔ اس معاہدے کو انسانی تاریخ کی ایک اہم قانونی دستاویز سمجھا جاتا ہے۔

صدیوں قبل کیے گئے اس تحریری معاہدے کا نفاذ 25 ارکان پر مشتمل ایک کونسل کے ذریعے ہونا تھا جس میں چرچ کے حقوق کی حفاظت، باغی جاگیرداروں کو غیر قانونی قید سے تحفظ دینے، فوری اور تیز تر انصاف تک رسائی اور بادشاہ کو جاگیرداروں کی جانب سے دی جانے والی رقم کی حد مقرر کرنے کے نکات شامل تھے۔ تاہم ابتدائی معاہدہ طے پانے کے باوجود اسے انگلستان کے قانون کا حصّہ بنانے میں 82 سال لگے۔ یہ معاہدہ 1297ء میں کنگ ایڈورڈ اوّل کے دور میں انگلش قانون کا حصہ بنایا گیا۔

انگلستان اور دنیا کی بھی تاریخ میں 1215ء اس وجہ سے ایک ناقابلِ فراموش سال بن گیا کہ اس سال انگلستان کے بادشاہ نے اُس فرمان پر دستخط کیے تھے جو منشورِ اعظم کے نام سے مشہور ہے۔ یہ منشور امریکہ اور برطانیہ کی شہری آزادی کا خشتِ اوّل بن گیا۔

کنگ جان عالی ظرف بادشاہ نہ تھا کہ اپنے کسی قیمتی حق کو خوش دلی سے چھوڑنے پر آمادہ ہو جاتا۔ لیکن بہت سے لوگ مخالف تھے۔ وہ امیروں اور عوام کو عجیب و غریب منصوبوں سے پریشان کرتا۔ اُس نے بھاری ٹیکس لگائے۔ صلیبی لڑائیوں اور جنگِ فرانس کا خرچہ عوام کے ذمے ڈال دیا۔ عدالتی نظام بگڑ گیا تھا۔
کلیسا کو بھی شکایتیں پیدا ہوئیں۔ علاوہ ازیں جان کی نجی زندگی بھی رُسوائی کے دھبوں سے آلودہ تھی۔

آخر کار امیروں نے اس کے سامنے جچے تلے مطالبے پیش کر دیے۔ ساتھ ہی دھمکی دی کہ اگر ان کے مطالبات مانے نہ گئے تو بغاوت ہو جائے گی۔ جان نے کھلی شکست سے بچنے کے لیے کلیسا کو کچھ رعایتیں دے دیں، ان کے لیے آزاد انتخاب کا اصول تسلیم کر لیا اور باشندگانِ لندن کو خاص حقوق عطا کیے۔ تاہم جو مطالبات امیر پیش کر چکے تھے ان پر وہ مضبوطی سے جمے رہے۔ آخر کار 15 جون 1215ء کو خفیف رد و بدل کے ساتھ منشورِ اعظم پر دستخط ہو گئے۔ بعدازاں تمام بادشاہ اس کی تصدیق کرتے رہے۔

یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس نام نہاد منشورِ اعظم میں صرف بادشاہ اور کلیسا، نیز بادشاہ اور امراء کے باہمی تعلقات کی وضاحت کی گئی تھی۔ لیکن ان میں سے کسی کو عوام کی بہتری اور بہبود مقصود نہ تھی۔ جو لوگ آزاد تھے انہیں یہ حق مل گیا کہ وہ اپنے مقدمات کا فیصلہ اپنے حلقے کے امیروں سے کرا لیں۔ انگلستان کے زیادہ تر باشندے زرعی غلام تھے، انہیں چار سو سال اور اسی حال میں گزارنے پڑے۔ بایں ہمہ منشورِ اعظم حقیقی جمہوریت کی شاہراہ پر بلا ارادہ ایک اہم سنگ میل بن گیا۔

(دنیا کے اہم واقعات پر مبنی کتاب سے لیا گیا، مصنّف نامعلوم)

Comments

- Advertisement -