تازہ ترین

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

پاکستان پر سفری پابندیاں برقرار

پولیو وائرس کی موجودگی کے باعث عالمی ادارہ صحت...

نو مئی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے جج کیخلاف ریفرنس دائر

راولپنڈی: نو مئی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے...

کوکلتاش: مغل دور کا ایک معتوب منصب دار

مغل دور کی تاریخ اور شخصیات پر مبنی تذکروں میں‌ ایک نام خان جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کا بھی پڑھنے کو ملتا ہے جس کے حالاتِ زندگی بہت کم معلوم ہوسکے ہیں، لیکن محققین نے اسے شہر لاہور کا صوبے دار اور سالار لکھا ہے جو عالمگیر کے عہد میں‌ زیرِعتاب آیا اور اسی حال میں‌ دنیا سے چلا گیا۔

شاہی عہد میں اس کے مقام و رتبہ اور مغل حکومت یا دربار کے لیے اس کی خدمات کے بارے میں بھی کچھ خاص معلومات نہیں‌ ہیں۔ اپنے وقت کے مشہور مؤرخ خافی خان نظامُ الملک کی تصنیف منتخبُ اللباب میں خانِ جہاں کا جو مختصر تعارف پڑھنے کو ملتا ہے اس کے مطابق عہدِ عالمگیر کے اس بڑے منصب دار کا اصل نام میر ملک حسین تھا۔ اسے بہادر خان، خانِ جہاں اور کوکلتاش کے ناموں سے بھی پکارا گیا۔ 1673ء میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے میر ملک حسین کو ’’خانِ جہاں بہادر کوکلتاش‘‘ اور 1675ء میں ظفر جنگ کا خطاب دیا۔

یہ 1680ء کی بات ہے جب لاہور میں انتظامی اختلافات کے بعد اورنگزیب عالمگیر نے اسے دور کرنے کے لیے شہزادہ محمد اعظم کو لاہور کا صوبے دار مقرر کیا۔ بعد ازاں اِس منصب پر مکرم خان اور سپہ دار خان بھی فائز کیے گئے۔ لیکن 1691ء میں یہ منصب خان جہاں بہادر کا مقدر بنا۔ اس نے لگ بھگ ڈھائی سال تک لاہور کی نظامت سنبھالے رکھی اور 1693ء میں مغل بادشاہ نے کسی بات پر کوکلتاش کو معزول کرنے کا فرمان جاری کردیا، اس کے بعد وہ چار سال تک زیرِ عتاب رہا۔

محققین کے مطابق خان جہاں بہادر باوقار شخصیت کا مالک اور صاحبِ تدبیر امیر تھا۔ اس نے مغل دور میں بڑی جنگوں میں حصّہ لیا اور سپہ سالار کی حیثیت سے محاذ پر پیش پیش رہا۔ اس نے مغلوں کے لیے اپنی خدمات میں کوئی کمی نہ کی اور ہر بار اپنی وفاداری ثابت کی۔

معزولی کے بعد خانِ جہاں بہادر کی زندگی مشکل ہوگئی اور 23 نومبر 1697ء کو اس نے لاہور ہی میں وفات پائی۔ مغل پورہ کے نزدیک ایک مقام پر اس کی تدفین کی گئی جہاں بعد میں مقبرہ تعمیر کیا گیا۔

کوکلتاش کا یہ مقبرہ اب خستہ حالت میں ہے، لیکن مغل طرزِ تعمیر کا یہ نمونہ اُس زمانے کے بہادر اور مغلوں کے وفادار کی یادگار اور نشانی کے طور پر دیکھنے والوں کو متوجہ ضرور کرتا ہے۔

یہ مقبرہ سترہویں صدی عیسوی میں اورنگزیب عالمگیر کے عہدِ حکومت کے آخری سالوں میں تعمیر کیا گیا اور اس عہد میں لاہور میں تعمیر کردہ آخری مقابر میں سے ایک ہے۔

یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ مؤرخین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ اس مقبرے میں کون ابدی نیند سورہا ہے اور سترہویں صدی اور اٹھارہویں صدی عیسوی کے مؤرخین کا اتفاق ہے کہ یہ خانِ جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کا مدفن ہے جو لاہور کا مقتدر اور مغل دربار کا وفادار تھا۔

Comments

- Advertisement -