تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

فاضل خان کوٹ کا نوحہ جس میں محمد بن قاسم کی فوج نے قیام کیا

سنجر چانگ گوٹھ کے قریب فاضل خان کوٹ کے آثار وادیٔ مہران کی قدیم تہذیب کے گواہ ہیں جو ماہرین اور تاریخِ تہذیبِ عالم میں دل چسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں اندازہ ہے کہ یہ تقریباً تین ہزار سال قدیم قلعہ ہے، جسے غالباً کلہوڑا حکم رانوں نے سندھ پر اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد یہ نام دیا ہوگا۔

فاضل خان کوٹ کم و بیش 20 ایکڑ پر مشتمل ہے اور اس کے وسیع و عریض رقبے میں ایک چھوٹا سا شہر بھی شامل تھا۔ یہاں‌ اس شہر کے آثار سے مکانات کی تعمیر، گلیوں، گزر گاہوں کے علاوہ فراہمی و نکاسی آب کے بہترین نظام کا پتا چلتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہاں حمام، عبادت گاہیں اور ضروریاتِ زندگی کی تمام سہولتیں موجود تھیں۔ خیال ہے کہ اس شہر کے لوگ خوش حال تھے۔

اس قلعے کی آبادی ہزاروں نفوس پر مشتمل تھی جو مختلف پیشوں سے وابستہ رہے ہوں گے۔ مؤرخین کے مطابق جس مقام پر یہ قلعہ تعمیر کیا گیا ہے، اسے ’’وہولہ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ قلعے اور ایسے شہر ہمیشہ دفاعی و تجارتی نقطۂ نظر سے بنائے اور بسائے جاتے تھے اور یقیناً اپنے دور میں‌ یہ بھی ایک اہمیت کی حامل جگہ رہی ہو گی۔

مؤرخین نے لکھا ہے کہ فاضل خان شہر کا بازار سکھر اور دیبل تک مشہور تھا۔ کہتے ہیں ملتان کی تسخیر کے ارادے سے نکلنے والا محمد بن قاسم کا لشکر جب فاضل کوٹ پہنچا تو اسے بغیر مزاحمت کے یہاں کی چابیاں سونپ دی گئیں اور قلعہ دار نے افواج کو لڑائی اور انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا لیا۔ اس قلعہ دار کا نام تاریخی کتب میں بُوہل درج ہے جسے محمد بن قاسم کی فوج نے قلعے کی محافظت دوبارہ سونپ دی اور اس کا منصب برقرار رکھا۔ ملتان روانگی سے قبل چند ماہ فوج نے شہر میں قیام کیا تھا۔

اس کے سات سو سال بعد کلہوڑا خاندان کی سندھ پر حکومت قائم ہوئی تو ایک شہزادے فاضل خان کلہوڑا نے اس قلعے کو دوبارہ مرمت اور تعمیر کروایا اور یہ اسی کے نام سے موسوم ہے۔

تاریخ کی کتب میں‌ لکھا ہے کہ کوٹ فاضل خان 1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کے ہاتھوں‌ ہندوستان کے حرّیت پسندوں کا مقتل بنا۔ بعدازاں فرنگیوں نے اس مقام کو جیل خانہ بنا دیا اورقلعے میں کچھ عرصہ توپ خانہ بھی رکھا گیا۔ آج اس قلعے کے آثار بھی مٹنے کو ہیں اور یہ انتہائی مخدوش حالت میں ہے جسے لوک ورثہ قرار دے کر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔

Comments

- Advertisement -