پشاور:خیبر پختونخوا حکومت نے مسیحی برادری کی شادی اور طلاق سے متعلق قانونی ترامیم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اب کوئی شخص محض الزام لگا کر بیوی کو طلاق نہیں دے سکے گا۔
تفصیلات کے مطابق ان خیالات کا اظہار وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا شوکت یوسفزئی نے پشاور میں ایک فلاحی تنظیم کے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
صوبائی وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی و ضلعی سطح پر مشائخ کونسل کے قیام کا فیصلہ ہوا ہے، بجٹ میں شادی، طلبہ اور بیواوں کے لیے وضائف رکھے گئے ہیں، صوبائی کابینہ میں مسیحی شادی ترمیمی بل اور طلاق ترمیمی بل پیش کیے جارہے ہیں اور 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کی عمر پر پابندی لگائی جارہی ہے۔
شوکت یوسف زئی نے کہا کہ طلاق کے حوالے سے خواتین کو تحفظ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، پہلے شوہر کوئی بھی الزام لگاکر بیوی کو طلاق دے کر جان چھڑا لیتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہوگا اور شوہر کو طلاق کے لیے بیوی پر الزام لگاکر اسے ثابت بھی کرنا ہوگا۔
یاد رہے کہ مسیحی برادری میں کوئی بھی شخص اپنی بیوی پر بد کرداری کا الزام لگا کر اسے طلاق دے سکتا ہے ، اس حوالے سے ماضی میں ایک کیس لاہور ہائی کورٹ کے جج منصورعلی شاہ کی عدالت میں آچکا ہے جس پر انہوں نے مسیحی قوانین کو پاکستان کے آئین سے ہم آہنگ کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ الزام لگانے والے شخص کو اپنا الزام ثابت بھی کرنا ہوگا ، بصورت دیگر طلاق کی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔
اس فیصلے کے خلاف درخواست گزار ایمونئیل فرانسز نے ایک درخواست دائر کررکھی ہے جس کی سماعت جسٹس عائشہ اے ملک کی سربراہی میں ڈیویژن بنچ کررہا ہے، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ عیسائی مذہب میں مداخلت کے مترادف ہے ۔