محمد حسین آزاد نے میر کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے بارے میں ایک دوست سے کہا کہ مجھے خبر نہیں کہ اس میں کوئی پائیں باغ بھی ہے۔
واقعہ نہایت مشہور ہے لیکن اسے محمد حسین آزاد کے گل و گلزار الفاظ میں سنا جائے تو لطف اور ہی کچھ ہوگا، ’’میر(میر تقی میر) صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھ کر لکھنؤ کے ایک نواب انھیں مع عیال اپنے گھر لے گئے اور محل سرا کے پاس ایک معقول مکان رہنے کو دیا۔ نشست کے مکان میں کھڑکیاں باغ کی طرف تھیں۔ مطلب اس سے یہی تھا کہ ہر طرح ان کی طبیعت خوش اور شگفتہ رہے۔ یہ جس دن وہاں آ کر رہے، کھڑکیاں بند پڑی تھیں۔ کئی برس گزر گئے، اسی طرح بند پڑی رہیں، کبھی کھول کر باغ کی طرف نہ دیکھا۔
ایک دن کوئی دوست آئے، انھوں نے کہا، ’’ادھر باغ ہے۔ آپ کھڑکیاں کھول کر کیوں نہیں بیٹھتے؟‘‘ میر صاحب بولے، ’’کیا ادھر باغ بھی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا کہ اسی لئے نواب آپ کو یہاں لائے ہیں کہ جی بہلتا رہے اور دل شگفتہ ہو۔ میر صاحب کے پھٹے پرانے مسودے غزلوں کے پڑے تھے، ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں تو اِس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اُس باغ کی خبر بھی نہیں۔ یہ کہہ کر چپ ہو رہے۔
کیا محویت ہے! کئی برس گزر جائیں، پہلو میں باغ ہو اور کھڑکی تک نہ کھولیں۔ خیر، ثمرہ اس کا یہ ہوا کہ انھوں نے دنیا کے باغ کی طرف نہ دیکھا۔ خدا نے ان کے کلام کو وہ بہار دی کہ سالہا سال گزر گئے، آج تک لوگ ورقے الٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔‘‘
اس بیان کے داخلی تضادات کو دیکھتے ہوئے شاید ہی کسی کو اس بات میں کوئی شک ہو کہ یہ واقعہ محض سنی سنائی گپ پر مشتمل ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے جن دو تذکروں پر کثرت سے بھروسا کیا ہے، ان میں یہ واقعہ مذکور نہیں۔ میری مراد قدرت اللہ قاسم کے ’’مجموعۂ نعز‘‘ اور سعادت خاں ناصر کے ’’خوش معرکۂ زیبا‘‘ سے ہے۔ لیکن ’’آب حیات‘‘ کا جادو سر پر چڑھ کر بولتا ہے اور آج تک میر کے بارے میں عام تصور یہی ہے کہ وہ مردم بیزار نہیں تو دنیا بیزار ضرور تھے۔
دنیا اور علائق دنیا سے انھیں کچھ علاقہ نہ تھا، اپنے کلبۂ احزاں میں پڑے رہنا، دلِ شکستہ کے اوراق کی تدوین کرنا اور اپنی غزلوں کے ’’پھٹے پرانے مسودے‘‘ مجمتمع کرتے رہنا گویا ان کا وظیفۂ حیات تھا۔ اگر مولانا محمد حسین آزاد کا بیان کردہ واقعہ فرضی ہے تو اغلب ہے کہ اس کی بنیاد میر کے حسبِ ذیل شعر پر قائم کی گئی ہوگی۔ دیوانِ پنجم میں میر کہتے ہیں:
سرو لب جو لالہ و گل نسرین و سمن ہیں شگوفہ ہے
دیکھو جدھر اک باغ لگا ہے اپنے رنگیں خیالوں کا باغ
(عظیم شاعر میر تقی میر کے فن و شخصیت پر معروف ادیب، نقّاد اور شاعر شمس الرحمٰن فاروقی کی تحریر سے اقتباس)