بہادر شاہ ابو ظفر کے عہد میں غدر سے پہلے دو داستان گو شہر میں مشہور تھے۔ بڑے عبداللہ خاں اور چھوٹے عبد اللہ خاں۔ دونوں کے دونوں اپنے فن میں کامل تھے۔
بڑے عبداللہ خاں اکثر حضورِ والا کو داستان سناتے تھے اور حضورِ والا پسند فرماتے تھے۔ میر کاظم علی دہلوی جو داستان گوئی میں فرد تھے، انہی کے شاگرد تھے اور میر باقر علی دہلوی انہی اپنے ماموں میر کاظم علی صاحب کے داستان میں شاگردِ بے نظیر تھے، جو حال ہی میں فوت ہوئے ہیں۔
رات کا وقت تھا۔ حضورِ والا چھپر کھٹ پر لیٹے تھے۔ حکیم احسن اللہ خاں صاحب چھپر کھٹ کے پاس بیٹھے تھے۔ عبداللہ خاں نے حسبِ دستور داستان شروع کرنے سے پہلے یہ لطیفہ بیان کیا کہ امر گڑھ کے قلعہ کے پاس چوک میں دو مسافر یوں بات چیت کر رہے تھے۔
’’آپ کی وضع سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ لکھنؤ کے رہنے والے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں! میں لکھنؤ کا باشندہ ہوں۔ مگر آپ کے لب و لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دہلی والے ہیں۔‘‘
’’بیشک میں دہلی رہتا ہوں۔ لکھنوی صاحب! یہ تو فرمائیے، آپ یہاں کیوں آئے ہیں اور کیا کام کرتے ہیں؟‘‘
لکھنوی: میں امیروں کو میٹھی میٹھی باتیں سناتا ہوں۔ آپ کیا شغل رکھتے ہیں؟
دہلوی: میں بات میں رفو کرتا ہوں۔
لکھنوی: ہم تم اس راجہ کے دربار میں چلیں اور اپنا ہنر دکھائیں۔
دونوں کی سرِشام راجہ تک پہنچ ہوگئی۔ راجہ نے کہا، ’’کچھ بیان کرو۔‘‘
لکھنوی: حضور یہ فدوی آج ہی آپ کے شہر میں داخل ہوا ہے۔ شہر سے ملی ہوئی ندی جو بہتی ہے اس میں ٹخنوں ٹخنوں پانی تھا۔ اتفاقاً ایک بیل ندی میں اترا، اس کا پاؤں پانی میں پھسلا۔ گرا اور گرتے ہی بھسم ہوگیا اور ا س کا ریشہ ریشہ پانی میں بہہ گیا۔
راجہ: یہ بات سمجھ میں نہیں آئی!
دہلوی: حضور ان کا کہنا سچ ہے۔ بیل کی بیٹھ پر سوکھا چونا لدا ہوا تھا۔ بیل کے گرتے ہی چونا بجھا اور بیل کو گلا کر اس کی بوٹی بوٹی کردی۔
راجہ اس حاضر جوابی سے بہت خوش ہوا اور دونوں کو پچاس روپیہ دے کر رخصت کیا۔ راجہ کے محل سے نکل کر لکھنؤ والے نے دہلی والے سے کہا،
’’کل پھر ہم تم مل کر راجہ کے یہاں چلیں گے۔‘‘
دہلی والے بولے میں تمہاری بات میں رفو نہیں کرسکتا۔ تم بے تکی باتیں بناتے ہو۔ کجا سوکھی ندی میں بیل کا گرنا اور کجا اس کا بھسم ہوجانا وہ تو مجھے سوجھ گئی اور بات میں رفو ہوگیا۔
(صاحبِ اسلوب ادیب اور شاعر ناصر نذیر فراق دہلوی کے مضمون سے انتخاب)