ہفتہ, فروری 1, 2025
اشتہار

جب گلے پر چھری رکھ دی گئی!

اشتہار

حیرت انگیز

ہندوستان میں انگریز راج کے دوران اردو اور ہندی زبان کے جس تنازع نے سَر اٹھایا تھا، وہ برس ہا برس سے مختلف شکلوں میں جاری ہے اور بٹوارے کے بعد اب بھی بھارت میں‌ اردو بولنے اور لکھنے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے وہاں زبان کو مذہب سے جوڑ کر پیش کیا گیا ہے اور اردو کی بنیاد پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ اس وقت انگریزوں کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ اگر کوئی زبان مشترکہ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ اردو ہے۔ اسی لیے فورٹ ولیم کالج میں نووارد انگریزوں کو اردو کی ابتدائی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا مگر اس پر 1867ء میں چند ہندو تنظیموں اور اکابرین نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی جس نے بعد میں اردو ہندی تنازع کو جنم دیا جو آج تک جاری ہے۔

یہاں ہم اس تناظر میں‌ اردو زبان کلاسیکی طرز کی شاعری اور اپنی شگفتہ اور رواں نثر کے لیے مشہور، متعدد اخبارات اور ادبی رسائل کے مدیر اور فلمی گیت نگار ماہر القادری کا ایک مضمون نقل کررہے ہیں جس سے اردو دشمنی میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں اور بعض اقدامات کے علاوہ اس وقت کے ہندو قائدین اور انتہا پسند تنظیموں‌ کے بغض و عناد کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی فرماں روا کو ہندوستان جیسا بیوقوف اور نا سمجھ ملک حکومت کرنے کے لیے نہیں ملا۔

ناواقفیت اور کور چشمی کی حالت میں، کنوئیں میں گر جانا قابلِ اعتراض فعل نہیں، لیکن سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے کنوئیں میں گر پڑنا، یقیناً دماغ کی خرابی اور فہم کی کوتاہی کی دلیل ہے۔

ابھی ہندو، مسلمان حقوق کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے اور یہ گتھی سلجھنے بھی نہ پائی تھی کہ زبان کا اختلاف پیدا ہوگیا۔ جس نے رہے سہے اتحاد کا خاتمہ کر دیا اور ہندو اور مسلمانوں کے درمیان افتراق و انشقاق کی گہری اور وسیع خلیج حائل ہوگئی۔ اگر مدبرین ملک نے مسئلہ کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے، زبان کے اس اختلاف کو دور نہ کیا، تو یہ خلیج اور زیادہ وسیع و عمیق ہو جائے گی اور پھر اس کی پایابی کے امکانات شاید باقی نہ رہیں گے۔

مولوی عبدالحق صاحب معتمد انجمن ترقی اردو نے جو بیان شائع کرایا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برادرانِ وطن نے اس اکھاڑے میں کتنی پھرتی اور چالاکی کے ساتھ پینترے بدلے ہیں اور اردو کو مٹانے کے لیے کس قدر منظم کوشش کی جارہی ہے۔ نوعیتِ مسئلہ اب اس منزل میں پہنچ گئی ہے، جہاں خاموش رہنا گناہ نہیں کفر ہے۔ اردو کے جسم پر جب تک خراشیں پہنچائی جاتی رہیں، ہم خاموش رہے، مگر اب جب کہ گلے پر چھری رکھ دی گئی ہے، زبان فریاد کرنے سے کس طرح رک سکتی ہے؟

ہندو لیڈروں میں تین اصحاب غیرمعمولی اثر و اقتدار رکھتے ہیں۔ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو اور پنڈت مدن موہن مالویہ! ہندوستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پنڈت مالویہ جی نے ہندو، مسلم اختلاف کی خلیج کو اپنے طرزِ عمل اور روش سے ہمیشہ وسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے ہم ان سے قریب قریب مایوس ہیں۔ مہاتما گاندھی سے بہت کچھ امیدیں وابستہ تھیں مگر جب سے مہاتما جی ضمیر کی آواز سننے لگے ہیں، مذہبی تعصب نے ان کے دل و دماغ کو گھیر لیا ہے۔ انہوں نے سیاسیات سے علیحدگی اختیار کرکے، ہریجن تحریک شروع کردی، جو خالص مذہبی تحریک ہے۔

مہاتما جی کو ہندو مسلمان دونوں اعتماد کی نظر سے دیکھتے تھے مگر ان کی عجیب و غریب روش نے اس اعتماد کو زائل کر دیا، جس کے وزن نے ان کو ’’مسٹر‘‘ سے ’’مہاتما‘‘ بنا دیا تھا۔ اس حقیقت کو کون جھٹلاسکتا ہے کہ کئی برس سے مہاتما جی کا وجود ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ان کے خیالات مذہبی تعصب کے تنگ دائرہ سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ خیال تھا کہ کانگریس کے اجلاس کے بعد ہندو مسلمانوں میں اتفاق ہو جائے گا اور مہاتما جی اپنی روش بدل دیں گے مگر انہوں نے روش میں تبدیلی پیدا کرنے کے بجائے، ہندی اردو کا فتنہ کھڑا کردیا، جس نے دو قوموں کو اختلافات کی دلدل میں پھنسا دیا۔

جب مہاتما جی ملک کے خیرخواہ تھے اور ان کے دائرۂ فکر و عمل میں مسلمانوں کے لیے بھی جگہ تھی، اس وقت انہوں نے اردو زبان سیکھی اور اپنے قلم سے مسیح الملک حکیم اجمل خاں مرحوم کو اردو میں خط لکھا مگر آج وہی مہاتما جی اردو سے بیزاری ظاہر فرماتے ہوئے، سنسکرت کے ایسے کٹھن الفاظ استعمال فرما رہے ہیں، جن کو شاید ’’پاننی‘‘ سمجھ سکے تو سمجھ سکے! جو زبان گاندھی جی استعمال کر رہے ہیں وہ اردو کو کھلا چیلنج ہے۔ ان حالات کے تحت مہاتما جی سے بھی ہم مایوس ہی سے ہیں، کیونکہ وہ ارادے کے بہت پکے ہیں، اور ایسا ارادہ، جس کی دیواروں میں تعصب کا سیسہ پگھلایا گیا ہو، اس کو کون جنبش دے سکتا ہے۔
پنڈت جواہر لال نہرو ایک معقول اور وسیع القلب رہنما ہیں، جن کا مسلمان بھی اب تک احترام کرتے ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ پنڈت جی فکر و رائے کی اس آزادی کے باوجود، گاندھی جی سے بے حد متاثر ہیں اور بعض وقت گاندھی جی کے ایک انچھر میں پنڈت جی کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو خود اچھی اردو بولتے ہیں اور ان کی خواتین بھی اردو کے میٹھے بولوں کے لیے مشہور ہیں مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ جواہر لال نہرو کی صاحب زادی کو خاص طور پر ہندی کی تعلیم دی جارہی ہے۔

ہم ہندی کے دشمن نہیں ہیں، اگر کوئی شخص ہندی سیکھتا ہے تو اس میں ہمارا کیا جاتا ہے، مگر پنڈت جواہر لال نہرو کی اس منقلب ذہنیت کا اتا پتا پا کر، شبہ ہوتا ہے کہ کہیں سابرمتی آشرم کے جوگی نے کچھ پڑھ کر پھونک تو نہیں دیا۔ اردو، ہندی کے مسئلہ میں پنڈت جواہر لال نہرو متذبذب سے نظر آتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردو سے بظاہر ان کو خاص لگاؤ اور رغبت نہیں رہی۔ لیکن اس تمام افسوس ناک صورتِ حال کے باوجود ہم پنڈت جواہر لال نہرو سے مایوس نہیں ہیں۔ پنڈت جی، ملک کے بہی خواہ ہیں اور جب وہ محسوس کریں گے کہ اس اختلاف کے سبب ملک تباہی کے گڑھے میں جارہا ہے تو وہ ضرور اس کو سنبھالنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہمارا قیاس ہے، خدا کرے یہ قیاس صحیح ثابت ہو۔

ایک طرف اردو کے خلاف مورچہ جما ہوا ہے اور دوسری طرف ہز ایکسیلنسی سر مہاراج کشن پرشاد بہادر یمین السطنت، سر تیجؔ بہادر سپرو، مسٹر اینؔ ہسکر، پنڈت برج موہنؔ دتاتریہ کیفی، رائے بہادر امر ناتھ اٹل، مسٹر سروجنی نائیڈو وغیرہ جیسے بہی خواہانِ اردو بھی موجود ہیں، جو اس مسئلہ میں تعصب سے بالکل الگ تھلگ رہ کر، حق کی حمایت کر رہے ہیں۔ خدا کرے کہ حق کی یہ حمایت بدستور جاری رہے، اور ورغلانے والوں کے حربے کارگر ثابت نہ ہوں۔

کانگریس سے دو باتیں
اس کے بعد ہم ہندوستان کی سب سے بڑی نمایندہ اور منظم جماعت کانگریس سے دو دو باتیں کرنا چاہتے ہیں، بشرطیکہ ہماری آواز سنی جائے۔ ہماری آواز یقیناً کمزور ہے مگر کانگریس تو کمزوروں کی حمایت کی دعوے دار ہے، ہم بے سرو سامانی کی حالت میں حق کا نعرہ بلند کر رہے ہیں لیکن سنا ہے کہ کانگریس تو حق پرست بے سرو سامانوں کو ہی اپنے آغوشِ شفقت میں لینے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ اگر یہ دعویٰ صحیح اور درست ہے تو پھر ہم کو یقین رکھنا چاہیے کہ ہماری آواز نہ صرف سنی جائے گی بلکہ اس پر ٹھنڈے دل سے غور بھی کیا جائے گا۔

کانگریس کا نصب العین آزادی ہے اور یہ امر بالکل متحقق اور مسلم ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں نے کانگریس میں شامل ہو کر جو قربانیاں دی ہیں، ان کو کسی طرح بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پشاور کے شہدا مسلمان ہی تھے، جنہوں نے کانگریس کے اصول کی کامیابی کے لیے اپنی چھاتیوں پر گولیاں کھائیں اور خاک و خون میں تڑپ کر جان دے دی۔ ان قربانیوں سے کانگریس کے وقار میں کس قدر اضافہ ہوا، اس کا جواب کانگریس ہی دے گی۔

اسمبلی کے گزشتہ انتخاب میں مسلمانوں نے کانگریس کا بہت کچھ ساتھ دیا مگر اب کانگریس کی روش مشتبہ معلوم ہوتی ہے اور وہ شاید مسلمانوں سے اشتراکِ عمل کرنا نہیں چاہتی۔ کانگریس کے اکثر ہندو لیڈر اردو کے مخالف ہیں اور مسٹر پٹوردھن جیسے لوگ تو اردو کی بنیادیں کھوکھلی کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ وہ زبان جس کو کروڑوں انسان بولتے ہیں، جو ہزاروں کتابوں کا سرمایہ رکھتی ہے، کسی طرح مٹائی نہیں جا سکتی۔ اس تخریبی کوشش کا ہاں یہ نتیجہ ضرور برآمد ہوگا کہ ہندو، مسلمانوں کے دل پھٹ جائیں گے اور کانگریس اپنے حصولِ آزادی کے مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے گی۔

اگر میرے پاس اطلاعات صحیح پہنچی ہیں، تو مجھے اس کا اظہار کرتے ہوئے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ کانگریس کے اجلاسوں کی کارروائیاں خالص ہندی زبان اور ہندی رسم الخط میں چھپوا کر تقسیم کی گئیں۔ خدا کرے یہ اطلاعات غلط ہوں، لیکن اگر صحیح ہیں تو پھر کانگریس کی اس غیر دانش مندانہ روش پر ماتم کرنا پڑے گا۔

اس کے بعد کانگریس سے یہ عرض کرنا ہے کہ اردو رسم الخط اور اردو کا سرحد، کابل، بلوچستان، کاشغر، لداخ، ایران، عراق، شام، فلسطین، شرق اردن، حجاز، یمن، مصر، جنوبی افریقہ، جاوہ وغیرہ ممالک سے گہرا تعلق ہے اور لسانی اعتبار سے ترکستان سے بھی شناسائی ہے، ان تمام ممالک میں اردو زبان کے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں جہاں فارسی اور عربی بولی جاتی ہے، اردو جاننے والا کسی نہ کسی حدتک اپنا ما فی الضمیر ادا کرسکتا ہے۔

اس اعتبار سے آزاد ہندوستان کروڑوں باشندوں سے اپنے تعلقات آسانی کے ساتھ قائم کرسکے گا اور تجارتی اور سیاسی سہولتیں پیدا ہو جائیں گی۔ کیا کانگریس اردو کو ختم کر کے ان ممالک سے بیگانہ بننا چاہتی ہے جن سے ہمسایگی، قربت اور ایشیائی ثقافت کے باعث تعلقات قائم رکھنا پڑیں گے۔ اردو زبان میں بین الاقوامی شان پیدا ہوگئی ہے، اور دنیا اس کو قبول کرتی جارہی ہے، کانگریس کو تو اردو کے شیوع میں مدد دینی چاہیے تاکہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں کے خیالات غیرلوگوں تک پہنچیں اور وہ ہمارا وزن محسوس کریں۔

کانگریس اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہوگی کہ سول نافرمانی کے زمانے میں جن مقررین نے ملک میں آگ لگائی اور ملک میں بیداری پیدا کی، ان میں سے زیادہ تعداد اردو بولنے والوں کی تھی۔ وہ قوت جو کانگریس کا دست و بازو رہ چکی ہے، کیا کانگریس اس کو بیکارکر دینا چاہتی ہے۔ یہ حقیقت اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اردو زبان اپنے اندر خطابت کی بڑی گنجایش رکھتی ہے اور اس زبان کے ذریعہ ملک و قوم کی بہت کچھ خدمت کی جاسکتی ہے۔ کیا کانگریس ہمارے اشارات پر غور کرے گی؟

سنسکرت کا تجزیہ
اس ضروری تمہید کے بعد اب ہم اردو، ہندی کے بنیادی موضوع پر آتے ہیں۔ جس ہندی زبان کے پرچار کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کی اصل سنسکرت اور پراکرت زبان ہے۔ پہلے ہم کو ہندی یا دیوناگری کے ماخذ (سنسکرت) پر نظر ڈالنی چاہیے کہ دنیا میں اس کا کیا درجہ رہا ہے اور اس وقت اس کی کیا حیثیت ہے؟ بھارت ورش کی قدیم تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ بھارت باشیوں نے غیرملکوں سے تعلقات پیدا کرنے کی عام طور پر کوشش نہیں کی۔

بھارت کے رہنے والے اپنے ملک کی چہار دیواری ہی میں امن و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے، اپنے ملک سے باہر جانے کی انہوں نے یا تو ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور ضرورت محسوس کی تو وہ وطن کی جدائی شاید گوارا نہ کرسکے۔ یہ تو معاشرتی اور تجارتی نوعیت تھی۔ اب مذہب باقی رہ جاتا ہے۔ مذہب کی تبلیغ کے سلسلہ میں دوسری قوموں اورملکوں سے تعلقات قائم ہو جایا کرتے ہیں مگر ہندوؤں کا قدیم مذہب کسی ایسے شحص کو جو دھرم سماج گھرانے میں پیدا نہیں ہوا، اپنے اندر جذب کرنے سے صاف انکار کردیتا ہے۔ بھارت کے قدیم باشندوں (اہل ہنود) کے اسی طرزِ عمل کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہندوستان کے علاوہ دنیا کے کسی خطہ پر نہ تو ہندو دھرم کا سایہ پڑ سکا اور نہ ہندو تہذیب کا کوئی نقش باقی رہ سکا۔ بھارت باشیوں نے اپنے کو دوسرے خطوں سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی اور وہ بھارت ورش کے مرغزاروں میں ہی گھوما کیے۔

سنسکرت ان لوگوں کی مادری زبان تھی، لہٰذا ان کی اس اجنبیت اور الگ تھلگ رہنے کا یہ اثر ہوا کہ ان کی زبان میں ’’بین الاقوامی‘‘ استعداد کبھی پیدا نہ ہوسکی اور شاید دنیا کے کسی لٹریچر کی ایک کتاب بھی سنسکرت میں منتقل نہیں ہوئی۔ ہم سنسکرت کے مصنفین کی علوِ خیالی اور جادو نگاری کے منکر نہیں ہیں لیکن ان کا طائرِ خیال ہمالیہ کی چوٹیوں سے آگے نہیں اڑ سکتا اور ان کی جادو نگاری کا چشمہ گنگا، جمنا میں گھل مل کر رہ جاتا ہے۔ اس زمانہ میں سنسکرت شباب پر تھی اور ہندو راجاؤں کے اقبال کا چراغ گنگا، جمنا کی لہروں پر جلتا تھا، اس زمانہ میں ہی جب سنسکرت کو وسعت دے کر ’’بین الاقوامی‘‘ زبان نہیں بنایا گیا، تو اس وقت کیا امید ہوسکتی تھی، جب کہ ان کے اقبال کا چراغ گل ہوچکا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان نے بہت سے پلٹے کھائے، سنسکرت نے بھی بہت سے چولے بدلے اور آخر یہ زبان بالکل مردہ ہو گئی۔

جس دریا کا منبع ہی خشک ہوگیا ہو، اس کے بہتے رہنے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ جب ہندی زبان کا ماخذ ہی ’’بین الاقوامیت‘‘ پیدا نہ کرسکا اور آخر کار وہ مردہ ہو گیا، تو پھر ہندی زبان سے ہم اس کی توقع کس طرح کرسکتے ہیں کہ وہ اس زمانے میں جب کہ غیرممالک کے تعلقات ہندوستان سے قایم ہو رہے ہیں، افہام و تفہیم، رسل و رسائل اورنامہ و پیام کا ذریعہ بن سکے گی۔

ہندی زبان کی ساخت کچھ اس نوعیت کی ہے کہ اس میں دوسری زبانوں کے لٹریچر منتقل کیے جانے کی صلاحیت ہی نہیں پائی جاتی۔ اس کے ثبوت کے لیے سنسکرت، پراکرت، برج بھاشا اور ہندی کی کتابیں اٹھا کر دیکھو تو معلوم ہو جائے گا کہ دوسری زبانوں کے لٹریچر سے یہ زبانیں یکسر خالی ہیں۔ ہندی میں خود کوئی جان اور وسعت نہیں ہے، اس کو دوسری زبانوں کے لٹریچر کے ترجمہ کے لیے سنسکرت کے الفاظ سے امداد لینا پڑے گی۔ لیکن اس معاملہ میں سنسکرت تو خود تہی مایہ اور کنگال ہے۔ برخلاف اس کے اردو زبان میں، دنیا کی مختلف زبانوں کی سیکڑوں کتابوں کا ترجمہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ جب کبھی خاص اصطلاحات کے لیے جدید الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے، تو اردو اپنی پشت پر فارسی، عربی کا لامحدود سرمایہ پاتی ہے جو اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ فارسی اور عربی زبان کی ’’بین الاقومیت‘‘ ظاہر ہے، ان ہی زبانوں کے اثر نے اردو میں بھی ’’بین الاقوای استعداد‘‘ پیدا کر دی اور وہ دنیا کے ہر لٹریچر کے ہر مفہوم کو ادا کرسکتی ہے۔

اردو کی مقبولیت
اردو زبان میں اس قدر جاذبیت اور دلچسپی ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگ جب ہندوستان میں آتے ہیں تو اردو بولتے اور لکھتے ہیں۔ عربوں اورایرانیوں کو چھوڑیے، شاید ہی کوئی ایسا انگریز ملے گا، جس نے ہندی زبان، اور ہندی رسم الخط اختیار کیا ہو، برخلاف اس کے اردو جاننے والے اور اردو لکھنے والے بہت سے انگریز ملیں گے، ایک دو انگریزوں نے تو اردو میں شعر بھی کہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ آنجہانی نے مولوی عبدالکریم صاحب اکبر آبادی کو اردو زبان سیکھنے کے لیے بلایا تھا۔ یہ اس زمانہ کا قصہ ہے جب کہ اردو لٹریچر کو زیادہ وسعت حاصل نہیں ہوئی تھی مگر زبان کی شیرینی، جامعیت اور بین الاقوامی شان تو اس وقت بھی موجود تھی۔

ہندوستان میں ہندی کے بہت سے اخبار اوررسالے نکلتے تھے لیکن غیر ممالک میں شاید ہی کوئی ہندی رسالہ یا اخبار جاتا ہو، مگر اردو کے بہت سے رسالے اور اخبار، دوسرے ممالک میں جاتے ہیں اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں اردو کے مشاعرے ہوتے ہیں اور اردو لٹریچر کی وہاں بہت کچھ مانگ ہے۔ ایک افریقی صاحب نے ڈربن میں ہوٹل قائم کیا ہے، انہوں نے مجھ سے ایک قطعہ اور اردو تحریر کا ایک نمونہ طلب کیا ہے، جسے وہ ہوٹل میں آویزاں کرنا چاہتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ افریقہ میں اردو بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والوں کی کافی تعداد ہے۔ میں اپنے متعلق اس قسم کی باتیں لکھنے کاعادی نہیں ہوں مگر ضرورت نے مجبور کردیا۔

اردو کی ہمہ گیری
اردو کو مٹاکر ہندی کو فروغ دینے کے یہ معنی ہیں کہ کروڑوں انسانوں کے حافظوں سے وہ الفاظ محو کر دیے جائیں جو زبانوں پر چڑھ چکے ہیں اور خیالات میں سما چکے ہیں۔ کیا یہ کوشش کسی طرح بھی تعمیری کہی جاسکتی ہے؟ کسی عمارت کو اسی وقت مسمار کیا جاتا ہے، یا تو وہ کمزور ہوگئی ہو یا زمانے کے حسین ڈیزائنوں کے مقابلہ میں بھدی اور بدشکل ہو، مگر ایک مستحکم اور حسین عمارت کو مسمار کر دینا تو ایک ایسی شدید حماقت ہے، جس پر انسانوں کو نہیں، بندروں کو ہنسی آنی چاہیے۔

مگر ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ کوشش کبھی بارآور نہیں ہوسکتی، کروڑوں انسانوں کی زبان کو مٹا دینا ناممکن ہے۔ ہم ہندی کے پرستاروں کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ وہ تخریبی کارروائی کرنے سے قبل، دیہات اور قریوں میں جاکر اردو کی ہمہ گیری، جامعیت اور قبولیت کا پہلے اندازہ لگا لیں، اس کے بعد وہ کوئی اقدام کریں۔ ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ دو گھروں کے کھیڑے میں بھی اردو زبان کے میٹھے بولوں کو سنیں گے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں