تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

لتا منگیشکر سے منسوب وہ مقبول ترین گیت جو انھوں‌ نے نہیں‌ گائے!

لتا چلی گئیں، انھوں نے دنیا سے منہ موڑ لیا۔ سُروں کی ملکہ، جہانِ ساز و آواز کی فرماں روا لتا منگیشکر کی شہرت اور مقبولیت ایک طرف ہندوستان میں انھیں بڑا مقام و مرتبہ بھی حاصل رہا ہے۔ بڑے بڑے کلاکار ان کے سامنے سَر جھکاتے اور ان کے دستِ شفقت کو اپنی بڑی خوش بختی اور اعزاز تصوّر کرتے تھے۔

برصغیر پاک و ہند اور جہاں جہاں اس خطّے کی موسیقی اور آواز کو سنا اور سمجھا جاتا ہے، وہاں لتا منگیشکر کو اُن گانوں کے لیے بھی سراہا گیا جو انھوں نے نہیں گائے تھے۔ جی ہاں، ایک گلوکارہ ایسی تھی جس کی آواز لتا منگیشکر سے مشابہت رکھتی تھی اور ان دونوں کی آوازوں میں تمیز کرنا مشکل تھا۔

ہندی فلم ‘‘نصیب‘‘ کا یہ گانا برصغیر میں‌ بے حد مقبول ہوا تھا جس کے بول ہیں، ’’زندگی امتحان لیتی ہے، لوگوں کی جان لیتی ہے…‘‘ دل چسپ بات یہ ہے کہ کل ہی نہیں آج بھی اس گیت کو سننے والوں کی اکثریت کے لیے یہ تسلیم کرنا آسان نہیں‌ ہوگا کہ یہ گیت لتا جی کی آواز میں ریکارڈ نہیں‌ کیا گیا ہے۔

1981ء کی اس فلم نے زبردست کام یابی سمیٹی تھی۔ اس گیت کے بول متعدد مقبولِ عام گیتوں کے خالق آنند بخشی کے قلم سے پُھوٹے تھے جب کہ موسیقی شہرۂ آفاق موسیقار جوڑی لکشمی کانت پیارے لال نے دی تھی۔ پرانی ہندی فلموں کے شائقین آج بھی یہ خوب صورت گیت شوق سے سنتے ہیں۔ یہ نغمہ اس وقت کے صف اوّل کے اداکاروں امیتابھ بچن، شتروگھن سنہا اور رینا رائے پر فلمایا گیا تھا۔ امیتابھ بچن اور شتروگھن کے بول بالترتیب انور اور ڈاکٹر کملیش اوستھی نے گائے تھے جب کہ اس گیت کے بولوں پر ادائیں‌ دکھاتی مشہور اداکارہ رینا رائے کے پسِ پردہ جو آواز سنائی دے رہی تھی، وہ لتا منگیشکر کی نہیں سمن کلیانپور کی تھی۔

اس زمانے کی طرح آج بھی پرانی ہندی فلموں کے دل دادگان کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اس گیت میں انور اور ڈاکٹر کملیش کی ساتھی گلوکارہ لتا منگیشکر تھیں۔ اس مغالطے کا سبب یہ ہے کہ سمن کلیانپور کی آواز سُروں کی دیوی کے لب و لہجے سے اس قدر مشابہ ہے کہ تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آج کسی گلوکارہ کو اگر لتامنگیشکر جیسی آواز اور گائیکی کی صلاحیت عطا ہوجائے تو وہ اسے اپنی خوش نصیبی سمجھے گی مگر سمن کلیانپور کے لیے یہ مشابہت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوہانِ روح بن گئی کیوں کہ انتہائی باصلاحیت گلوکارہ ہونے کے باوجود دنیائے موسیقی انھیں ان کا جائز مقام نہ دے سکی۔ سمن کے گلے سے نکلتی لتا جیسی سُریلی آواز ان کی جُداگانہ پہچان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔

سمن نے جب فلم نگری میں قدم رکھا تو اس وقت جہانِ موسیقی میں لتا منگیشکر کا طوطی بول رہا تھا۔ برصغیر میں شائقین فلم و موسیقی ان کی آواز کے سحر میں مبتلا تھے۔ ہر چند کہ سمن نے فلم نگری میں سخت محنت سے اپنا مقام اور شناخت بنانے کی کوشش کی مگر بدقسمتی سے ان پر لتا منگیشکر کی ’ڈپلیکیٹ‘ کی چھاپ لگ گئی۔ جو فلم ساز کسی بھی سبب سے لتا منگیشکر کی خدمات حاصل کرنے میں ناکام رہتا تو پھر اس کا انتخاب سمن کلیانپور ہوتی تھیں۔ اگرچہ یہ بھی اس امر کا اعتراف تھا کہ سُر بکھیرنے میں سمن کسی بھی طرح لتا منگیشکر سے کم نہیں۔

اس باکمال گلوکارہ نے 28 جنوری 1938ء کو ڈھاکا کے ایک برہمن گھرانے میں جنم لیا تھا۔ ان کا پیدائشی نام سمن ہماڈے تھا۔ والد کا آبائی تعلق ریاست کرناٹک کی تحصیل کنڈاپور کے گاؤں ہماڈے سے تھا اور اُن دنوں وہ سینٹرل بینک آف انڈیا کے اعلیٰ عہدے دار کی حیثیت سے ڈھاکا میں تعینات تھے۔ چھے بچّوں میں سمن ان کی سب سے بڑی اولاد تھیں۔ 1943ء میں یہ خاندان ممبئی منتقل ہوگیا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ سمن نے گائیکی کو بہ طور مشغلہ اپنایا تھا۔ دھیرے دھیرے سُرسنگیت میں ان کی دل چسپی اتنی بڑھ گئی کہ انھوں نے اس فن کو پیشہ وارانہ طور پر اپنانے کا فیصلہ کرلیا۔ چناں چہ پنڈت کیشو راؤ بھولے کے بعد انھوں نے استاد خان عبدالرحمان خان اور گرو جی ماسٹر نورنگ سے فنِ گائیکی کی تربیت لی۔

1952ء میں انھیں آل انڈیا ریڈیو کے لیے گانے کی پیشکش ہوئی۔ خاصی کوشش کے بعد وہ والدین سے اجازت لینے میں کام یاب ہوگئیں۔ یہ ان کی اوّلین پبلک پرفارمینس تھی جس نے فلم نگری سے منسلک کئی لوگوں کو چونکا دیا چنانچہ انھیں پہلی فلم کے لیے گیت گانے کی پیش کش ہوئی۔ 1953ء میں ریلیز ہونے والی اس مراٹھی فلم کا نام ’’ سُکھ رچی چاندنی‘‘ تھا۔ انھی دنوں معروف فلم ساز شیخ مختار فلم ’’ منگو‘‘ بنانے کی تیاریاں کررہے تھے۔ انھوں نے جب سمن کا گیت ’’ سُکھ رچی چاندنی‘‘ سنا تو بہت متأثر ہوئے اور اس نوجوان گلوکارہ سے اپنی فلم کے لیے گیت ریکارڈ کرانے کی فرمائش کی۔ تاہم اسی دوران کسی سبب سے او پی نیر کے بجائے محمد شفیع نے موسیقار کی ذمے داریاں سنبھال لیں۔ محمد شفیع نے سمن کے گائے ہوئے دو گیت نکال باہر کیے۔ اس طرح سمن کی آواز میں گائی ہوئی ایک لوری ’’کوئی پکارے دھیرے سے تجھے‘‘ ہی فلم میں شامل رہی۔ 1954ء میں سنیماؤں کی زینت بننے والی اس فلم سے ہندی فلم نگری میں سمن کی آمد ہوئی۔

کچھ ہی دنوں کے بعد انھیں فلم ’’ دروازہ‘‘ میں اپنی گائیکی کے جوہر دکھانے کی پیش کش ہوئی۔ 1954ء ہی میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو سمن کلیانپور کی پہلی ہندی فلم خیال کیا جاتا ہے۔ ان کی پیشہ وارانہ زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب انھیں شہرۂ آفاق گلوکار محمد رفیع کے ساتھ فلم ’’مس بومبے‘‘ میں ایک دوگانہ گانے کا موقع ملا۔ اس گیت کے بول تھے،’’دن ہو یا رات، ہم رہیں تیرے ساتھ۔‘‘ یہ گیت عوام الناس میں بے حد پسند کیا گیا تھا۔ تاہم لتا منگیشکر کی آواز سے حیران کُن مشابہت کے باعث لوگوں نے اسے لتا جی ہی کی آواز سمجھا۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد سمن کلیانپور پر فلم نگری کے دَر وا ہوگئے۔

انھیں تسلسل کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگانے کے مواقع ملنے لگے۔ مگر یہ اس فن کارہ کی بدقسمتی تھی کہ اس وقت فلمی موسیقی پر لتا اور ان کی بہن آشا کا راج تھا۔ ہر فلم ساز اپنی فلم میں لتا کی آواز شامل کرنے کا خواہش مند ہوتا تھا۔ تاہم بے پناہ مصروفیت کے سبب لتا منگیشکر کے لیے ہر فلم ساز کی خواہش پوری کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ دوسری جانب اپنی مقبولیت اور مانگ کی مناسبت سے ان کا معاوضہ بھی زیادہ تھا۔ چنانچہ فلمی دنیا میں سمن کی مصروفیت بڑھتی چلی گئی۔

فلم ’’ پیاسے پنچھی‘‘ میں ہمنت کمار کے ساتھ دوگانہ تمھی میرے میت ہو، ’’ شمع‘‘ کا ایک جرم کرکے ، اور دل غم سے جل رہا، ’’ برسات کی رات‘‘ کا گرجت برسات ساون آیو، ’’ زندگی اور خواب ‘‘ کا نہ جانے کہاں تم تھے، ’’بات ایک رات کی‘‘ کا نہ تم ہمیں جانو نہ ہم تمھیں جانیں، ’’دل ایک مندر‘‘ کا جوہی کی کلی میری لاڈلی اور دل ایک مندر ہے،’’جہاں آرا ‘‘ کا بعد مدت کے یہ گھڑی، ’’شگن‘‘ کا پربتوں کے پیڑوں پر اور بجھا دیا ہے خود اپنے ہاتھوں، ’’ جب جب پھول کھلے‘‘ کا نا نا کرتے پیار تمھی سے، ’’ دل نے پھر یاد کیا‘‘ کا گیت دل نے پھر یاد کیا، ’’ ماڈرن گرل‘‘ کا یہ موسم رنگین سامان اور بہت سے دوسرے گیت مقبولیت کی بلندیوں کو چُھوگئے۔

اسی دوران ہندوستانی فلمی دنیا کی مقبول ترین گلوکار جوڑی لتا اور محمد رفیع کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور لتا نے ان کے ہمراہ گیت ریکارڈ کروانے سے انکار کردیا۔ ناراضی کا یہ عرصہ دو سال پر محیط رہا۔ اس دوران سمن کلیانپور فلم سازوں کی منظورِ نظر بنی رہیں اور انھوں نے متعدد فلموں میں درجنوں گیت گائے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ شائقین سمن کی آواز کو لتا کی آواز سمجھتے تھے اور درحقیقت فلم ساز بھی یہی چاہتے تھے۔ اسی لیے اگر کوئی سوال کرتا کہ کیا فلم کے گیت لتا نے گائے ہیں تو بیشتر فلم ساز اور ہدایت کار اس کی تردید نہیں کرتے تھے۔

سمن کلیانپور کو لتا منگیشکر کے ساتھ بھی ایک دوگانہ ریکارڈ کرانے کا موقع ملا۔ اس گیت کے بول تھے،’’کبھی آج، کبھی کل، کبھی پرسوں۔‘‘ اس گیت کی موسیقی ہمنت کمار نے ترتیب دی تھی۔

(ندیم سبحان کے مضمون سے خوشہ چینی)

Comments

- Advertisement -