کراچی: وکلا کی جانب سے کلائنٹس کے خلاف مقدمات کے اندراج سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس صلاح الدین پنہور نے اپنے ریمارکس میں کہا ’’ہم وکلا کو خراب نہیں کہیں گے خرابی پولیس میں ہے۔‘‘
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں وکلا کی جانب سے کلائنٹس کے خلاف مقدمات کے اندراج سے متعلق درخواستوں کے کیس میں آئی جی سندھ کی جانب سے ایڈیشنل آئی جی عدالت میں پیش ہوئے، انھوں نے وکلا کی جانب سے مقدمات کی رپورٹ پیش کی۔
اے آئی جی نے بتایا کہ سال بھر میں وکلا کی جانب سے 581 مقدمات درج کیے گئے ہیں، 14 مقدمات پولیس اور 14 کلائنٹس کے خلاف بھی درج کیے گئے، بیش تر کیسز میں چالان ہو چکے ہیں، کچھ کیسز کو اے کلاس کر دیا گیا ہے اور کچھ میں کمپرومائز ہو گیا۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ وکلا سے بہت زیادتیاں ہو رہی ہیں، وکلا کو قانونی کارروائی کے لیے پولیس اسٹیشن جانا پڑتا ہے اور وہ 608 مقدمات درج کرا چکے ہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں ہو رہی، انھوں نے کہا پولیس کر کیا رہی ہے؟ قتل کا مقدمہ درج کرنے کو پولیس تیار نہیں ہوتی۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا جتنی زیادتیاں ہو رہی ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے جوڈیشل نوٹس کا حق تو بنتا ہے، کوئی بڑی گاڑی جا رہی ہو تو پولیس میں ہمت نہیں اسے روکے، اگر ایک پولیس کانسٹیبل کیمرہ لگا کر کھڑا ہو تو بڑا آدمی ہو یا سیاست دان، رکنا ہی پڑے گا، کوئی پولیس سے بدتمیزی کرے گا تو ویڈیو بھی وائرل ہوگی اور کارروائی بھی ہوگی۔
انھوں نے کہا پولیس کو اتنا کمزور بنا دیا گیا ہے کہ ان میں اتنی ہمت نہیں کہ بڑے لوگوں کو روک سکیں، پولیس صرف غریب لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار رہتی ہے، کراچی کے حالات بہت خطرناک ہو چکے ہیں، کسی شہری کو کراچی چھوڑنے کا موقع ملے تو کوئی نہیں رہے گا۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ ہم وکلا کو خراب نہیں کہیں گے خرابی پولیس میں ہے، سندھ کے سرداروں کی وجہ سے سندھ میں ڈاکو آزاد گھوم رہے ہیں، کیا آج تک کسی ایک سردار کے خلاف بھی مقدمہ کیا گیا؟ کیا کوئی کارروائی کی گئی؟
سماعت مکمل ہونے پر سندھ ہائیکورٹ نے آئندہ سماعت پر فریقین سے تازہ رپورٹس طلب کر لیں۔