اشتہار

لاپرواہی اور سُستی سے کیسے بچا جائے؟

اشتہار

حیرت انگیز

ہر انسان بہت سی اچّھی اور بُری عادتوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو اُسے فائدہ یا نقصان پہنچاتی ہیں، نقصان دینے والی عادتوں میں سے ایک سُستی اور لاپرواہی بھی ہے جس کا اظہار ہم بہت سے کاموں کو ٹال کر کرتے ہیں کہ آج نہیں تو چلو کل کرلیں گے۔

مشہور مقولہ ہے کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو کیونکہ اگر آج کا کام وقت پر نہ کیا تو دوسرے دن کل والا کام بھی کرنا پڑے گا جو نہ ہونے کی صورت میں سب کے سامنے شرمندگی سے دوچار کردے گا۔

ہم بحیثیت انسان کسی نہ کسی حد تک سُستی سے کام لیتے ہیں لیکن یہ چیز ایک مسئلہ اس وقت بنتی ہے جب آپ جانتے ہوں کہ وقت پر کام ختم نہ کرنے کا یقیناً نقصان ہی ہوگا لیکن ہم پھر بھی تاخیر کرتے رہتے ہیں۔

- Advertisement -

سستی

ٹال مٹول اور کاہلی کی عادت اگر پکی ہوجائے تو اس کے برے اثرات آپ صحت پر بھی پڑسکتے ہیں، آپ مستقل طور پر ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں، ورزش کو ملتوی کرتے ہوئے آپ مزید غیر صحت مند خوراک کھاتے رہتے ہیں اور حتیٰ کہ کسی بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے باوجود ڈاکٹر کے پاس جانے میں بھی لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔

تو کیا نفسیات کے شعبے میں ہونے والی کوئی تحقیق اس عادت سے ہماری جان چھڑا کر وقت پر کام کرنے کا جذبہ اجاگر کرسکتی ہے؟ اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کچھ مشوروں اور ٹوٹکوں کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

لاپرواہی

صرف قوت ارادی پر انحصار نہ کریں

ایک برطانوی نفسیاتی ماہر ایئن ٹیلر کا کہنا ہے کہ لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم پختہ ارادہ کرلیں تو سستی سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔

لیکن ایئن پیٹر کے بقول قوت ارادی کام کا جذبہ پیدا کرنے کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے لیکن یہ بہترین طریقہ نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ناگوار پہلوؤں کو نظر انداز کر کے اپنا بڑا مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔

مثلاً اگر آپ آدھے گھنٹے سے دوڑ رہے ہیں اور اب آپ کے پٹھوں میں درد ہو رہا ہے، تو ضروری نہیں کہ یہ درد کوئی بری بات ہو اور اس کے خلاف لڑنا ضروری ہو، کیونکہ اگر آپ واقعی فِٹ ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ درد بھی اس کا حصہ ہے۔

جس کام کو ٹال رہے ہیں اس میں کچھ مثبت تلاش کریں

کیا کسی کام کو ٹالنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کو ناکام ہو جانے کا خطرہ ہے، یونیورسٹی آف شفیلڈ کی محقق فوچیا سیروس کی تحقیق بتاتی ہے کہ اس مسئلے کی وجہ ہمیشہ سستی اور وقت کا درست استعمال نہ کرنا نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ اپنے جذبات کو درست سمت میں استعمال نہ کرنا بھی ہوسکتی ہے۔

اگر آپ کو یہ فکر ہے کہ آپ کسی کام میں ناکام ہو جائیں گے تو آپ اس کام کو ملتوی کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں اور ناخوشگوار جذبات سے نہیں گزرنا چاہتے۔

اس قسم کی سوچ پر قابو پانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے سامنے جو کام پڑا ہے، اس میں سے مثبت پہلو تلاش کریں ہوسکتا ہے آپ اس میں کوئی نئی چیز سیکھ لیں اور آپ کو توقع سے زیادہ مزہ آنے لگے۔

وقت

وقت سے پہلے منصوبہ بندی کریں

اگر آپ جانتے ہیں کہ کوئی ایسی خاص چیز ہے جو آپ کو ٹال مٹول پر مجبور کرسکتی ہے تو آپ کو چاہیے کہ آپ وہ نفسیاتی حکمت عملی استعمال کریں، اگر آپ وقت سے پہلے کام کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو سوچ لیتے ہیں کہ ’اگر‘ یہ ہوا تو میں ’پھر‘ کیا کروں گا۔

اپنی تکلیف کو کم کریں

کسی کام کے آغاز کو جتنا آسان بنا سکتے ہیں بنائیں۔ کیا آپ نے کبھی ’چوائس آرکیٹیکچر‘ کے بارے میں سنا ہے؟ اس کی ایک عام مثال یہ ہے کہ جب آپ خریداری کر کے دکاندار کو پیسے دے رہے ہوتے ہیں اور اس کے پاس چاکلیٹ کی بجائے کوئی تازہ پھل پڑا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ زیادہ صحت افزا چیزیں کھانا شروع کر دیتے ہیں۔

ہم یہ طریقہ خود پر بھی لاگو کر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ناشتے کے بعد دوڑنے کے لیے جانے کا سوچ رہے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ آپ ورزش کے کپڑے پہن لیں۔ اسی طرح جو کام آپ نے صبح کرنا ہے اس کی چیزیں ایک رات پہلے سامنے میز پر رکھ دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صبح آپ کی نطر سب سے پہلے جس چیز پر پڑے گی آپ وہی کام شروع کر دیں گے۔

خود کو انعام دیں

امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی سے منسلک کیٹلِن وُولی کی ایک نئی تحقیق کے مطابق لوگوں کو اگر اپنے کام کا پھل فوراً ملنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ محنت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بنسبت اس وقت جب انہیں اپنے کام کا صلہ انتظار کے بعد ملتا ہے۔

ہمیں لیت و لعل سے کام لینا اچھا اس لیے لگتا ہے کہ ہم پیچیدہ کام ملتوی کرکے خوش ہونے لگتے ہیں کہ چلو یہ مصیبت تو ٹلی۔ اس کا علاج یہ ہے کہ آپ خود کو لیت و لعل کا انعام دینے کی بجائے کوئی بہتر انعام دیں۔

آپ بھی سوچیے کہ آپ کے لیے کیا چیز بہترین ہو سکتی ہے اور خود سے یہ تہیہ کر لیں کہ آپ نے کام ختم کر کے دم لینا ہے۔

حقیقت پسندانہ تصویر سامنے رکھیں

ہم سے اکثر لوگوں کو یہ سوچنا اچھا لگتا ہے کہ مستقبل میں ہمارے پاس وقت زیادہ ہوگا، یوں ہمیں امید ہوتی ہے مستقل میں ہم زیادہ منظم طریقے سے کام کریں گے اور ہم سوچتے ہیں کہ پھر ہمارے اندر توانائی بھی زیادہ ہوگی اور ہم ایک ایسی زندگی جی رہے ہوں گے جہاں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی۔

صاف ظاہر ہے ایسا ہو گا نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں نہیں پتہ ہوتا کہ کوئی کام کتنا وقت لے گا۔ اس کیفیت کو ’پلانِنگ فیلیسی‘ یا منصوبہ بندی کا مغالطہ کہتے ہیں۔

خود پر رحم کریں

اگر آپ آج کا آدھا دن پہلے ہی انٹرنیٹ پر ضائع کرچکے ہیں اور آپ کو جا کر اپنا کام کرنا چاہیے، ہماری اس تجویز کی کوئی تُک نہیں بنتی کہ خود پر رحم کریں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ وہ لوگ جو کام کرنے کی بجائے بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہیں، اپنا لحاظ کم کرتے ہیں۔

اور چونکہ یہ لوگ پہلے ہی کام نہ کرنے کی وجہ سے خود کو کوس رہے ہوتے ہیں، ایسے میں اگر ان پر مزید منفی سوچ حاوی ہو جائے تو ان کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوگی۔

اپنے بارے میں صحیح طریقے سے بات کریں

آپ اپنے بارے میں کس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں، یہ چیز بھی بہت اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو ایک شخص کے طور پر پیش نہ کریں جو کبھی کبھی بھاگنے چلا جاتا ہے اور ڈائیٹنگ بھی کر لیتا ہے بلکہ خود کو ’ورزش کرنے والا‘ اور ’صحت افزا خوراک کھانے والے شخص‘ کے طور پر پیش کریں۔ یوں اس بات کے امکانات شاید زیادہ ہوجائیں کہ آپ واقعی بھاگنا اور اچھی چیزیں کھانا شروع کر دیں۔

ائین ٹیلر کہتے ہیں کہ یہ ترکیب کام کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یوں کہنے سے آپ کی ذات اور اُس رویے کے درمیان ایک رابطہ بن جاتا ہے۔ یوں آپ محض وہ رویہ نہیں جی رہے ہوتے، بلکہ آپ وہ زندگی گزارنے لگتے ہیں جیسی آپ کی خواہش ہوتی ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں