جمعہ, جون 28, 2024
اشتہار

‘مینسن فیملی’ کی رکن وان ہوٹن کی رہائی اور ہالی وڈ

اشتہار

حیرت انگیز

1969 میں‌ اگست کے مہینے میں دو شہریوں کے وحشیانہ قتل کی خبر لاس اینجلس کے اخبارات میں‌ شایع ہوئی۔ انھیں خنجر کے وار کر کے بیدردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ بعد میں اس قتل میں ملوث 19 سالہ لڑکی لیسلی وان ہوٹن گرفتار ہوئی۔ اس واردات سے چند روز قبل ہی ہالی وڈ کی ایک اداکارہ، اسکرپٹ رائٹر سمیت دو آرٹسٹوں اور ایک نوجوان لڑکے کو بھی اسی طرح قتل کیا گیا تھا۔ ہالی وڈ میں خوف کے ساتھ رنج و غم کی فضا تھی جب کہ ان پانچ افراد کا قتل اُس وقت شہ سرخیوں میں‌ تھا۔

جواں سال لیسلی وان ہوٹن جو ایک دکان دار کے قتل میں ملوث تھیں

لیسلی وان ہوٹن اب 73 برس کی ہیں اور دو روز قبل (منگل) ہی وہ جیل سے باہر آسکی ہیں۔ وان ہوٹن کی اس ‘آزادی’ کے ساتھ ہی فلمی دنیا اور فیشن انڈسٹری کے اُن آرٹسٹوں‌ کی یاد بھی تازہ ہوگئی ہے جنھیں رات کی تاریکی میں موت کی نیند سلا دیا گیا تھا۔

وان ہوٹن کو 73 سال کی عمر میں جیل سے رہا کیا گیا ہے

مقتولین میں ہالی وڈ کی ابھرتی ہوئی اداکارہ شیرون ٹیٹ، ہیئراسٹائلسٹ جے سیبرنگ، اسکرین رائٹر فریکوِسکی اور ایک سرگرم سوشلسٹ ایبیگیل اینے کے علاوہ 18 سالہ ایک نوجوان شامل تھا۔

- Advertisement -
مقتول اداکارہ شیرون ٹیٹ

لیسلی وان ہوٹن 50 سال عمر قید سے زیادہ بھگت کر پیرول پر رہا ہوئی ہیں۔ ان کی وکیل کے مطابق کیلیفورنیا میں خواتین کی جیل سے رہائی کے بعد وہ ممکنہ طور پر تین سال کے لیے ‘آزاد’ رہیں گی۔ وان ہوٹن کیلیفورنیا میں ایک دکان دار لینو لابیانکا اور ان کی اہلیہ روز میری کے قتل میں ملوث رہی تھیں۔

ان معروف شخصیات اور اس کے فوراً بعد لابیانکا اور اہلیہ کا قتل دراصل ’مینسن‘ کے اکسانے پر کیا گیا تھا جو گم راہ کُن عقائد کا حامل اور ایک جنونی تھا۔ امریکی اسے شیطان کی شبیہ اور ایک بدصفت انسان کہتے ہیں۔

مینسن فیملی کا سربراہ عدالت میں پیشی کے موقع پر
چارلس مینسن

نوخیز اداکارہ شیرون ٹیٹ اور اس کے ساتھیوں کے قتل نے فلمی ستاروں کا مسکن سمجھے جانے والے شہر لاس اینجلس میں‌ خوف کا ماحول پیدا کر دیا تھا۔ وہ فلم ڈائریکٹر رومن پولانسکی کی بیوی تھی اور یہ جوڑا بیورلی ہلز کے شمال میں واقع مینشن سیلو ڈرائیو کا رہائشی تھا۔ پولانسکی ایک فلم کی شوٹنگ کی غرض سے لندن گیا ہوا تھا اور اس کی بیوی اداکارہ شیرون ٹیٹ آٹھ ماہ کی حاملہ تھی۔

اداکارہ شیرون ٹیٹ اپنے شوہر رومن پولانسکی کے ساتھ

اس ہولناک واردات سے اگلی ہی رات ویورلی ڈرائیو میں‌ ایک دکان دار اور اس کی اہلیہ کو بھی خنجر کے وار کر کے ہلاک کر دیا جاتا ہے اور یہ مقام سیلو ڈرائیو سے چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع تھا، لیکن پھر یہ سلسلہ رک گیا۔

قاتلوں کا سراغ اور ان وارداتوں کی وجہ تو بعد میں‌ سامنے آئی، لیکن پولیس کا خیال تھا کہ قاتل صرف مشہور یا پھر امیر لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

چارلس مینسن ان وارداتوں کا اصل ذمہ دار تھا۔ اس کی زندگی ناآسودہ اور محرومیوں کا شکار رہی جس نے اسے آوارہ اور مفاد پرست بنا دیا تھا۔ وہ ایک شاطر نوجوان تھا جس کی جوانی کا بڑا عرصہ چھوٹے موٹے جرائم اور دنگا فساد کی وجہ سے جیلوں میں گزرا۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ اپنی باتوں‌ سے لوگوں کو متأثر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ماں باپ کی موت کے بعد اس نے سوسائٹی میں اپنا وجود منوانے اور بقاء کے لیے منفی سرگرمیوں کو اپنا لیا۔ اس کی باتیں ایسی تھیں کہ نوجوان اور ہر عمر کے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آتے۔ وہ انھیں اپنی چکنی چپڑی باتوں‌ سے اپنا گرویدہ بنا لیتا اور بالخصوص نوجوانوں‌ کو نشے کا عادی بنا کر اپنا فرماں‌ بردار اور مطیع کرلیتا۔ شاطر اور مجرمانہ ذہینت کے حامل چارلس مینسن نے جادو بیانی کی اپنی طاقت کا استعمال صحیح اور غلط کا فرق جانے بغیر کیا۔ اسے جیل میں ایک خطرناک اور ناقابلِ بھروسہ شخص بھی قرار دیا گیا تھا۔ چارلس مینسن نے 1955 میں شادی کی، لیکن بیوی اسے چھوڑ گئی اور وہ جرائم پیشہ زندگی میں‌ مگن ہوگیا۔ اس نے مختلف جرائم کی پاداش میں سنہ 1958 سے لے کر سنہ 1967 تک جیل کاٹی۔ اسی عرصہ میں وہ موسیقی کی طرف متوجہ ہوا اور گٹار بجانا سیکھا۔ موسیقی کو سمجھنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ گٹار بجانے کی مشق کرتے ہوئے چارلس مینسن خود کو ایک موسیقار سمجھنے لگا۔ وہ اس وقت کے مشہور میوزیکل بینڈ ‘دی بیٹلز’ سے بہت متأثر تھا۔ اسی میوزیکل بینڈ کے ایک گیت کو مینسن نے وہ معنیٰ دیے اور اس کا وہ مفہوم نکالا جو شاید اس کے ذہن میں‌ پنپتے ہوئے کسی خیال اور جنونی سوچ کی تکمیل میں بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔

چارلس مینسن کو 1967 میں جیل سے رہائی ملی۔ اُس وقت وہ 32 سال کا تھا اور جیل سے باہر آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اس کا ذہن شیطانی منصوبے ترتیب دینے لگا۔ اس نے میل جول کے دوران اپنی اثر انگیز باتوں‌ سے نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کیا اور ایک ٹھکانہ بنا کر وہاں‌ ان کے سامنے خاص فکر اور نظریات کا اظہار کرنے لگا۔ وہ ایک قسم کا واعظ بن چکا تھا جس کے گرد عقیدت مند اکٹھے ہوتے گئے اور انہی کے ذریعے چارلس مینسن نے کئی افراد کو قتل کروایا۔ وہ ہپی طرزِ زندگی اپنا چکا تھا اور بعد میں‌ لوگوں کو منشیات کے زیرِ‌اثر اپنی بات ماننے پر مجبور کرتا رہا۔ اس نے ایک قسم کا فرقہ اور گروہ بنا لیا تھا جس میں‌ شامل مینسن کے کئی پیروکاروں میں اکثریت کم عمر لڑکیوں کی تھی۔ اوپر ہم نے وان ہوٹن کا ذکر کیا ہے، جو اسی چارلس مینسن کی پیروکار تھی اور نوجوانی میں اس کی باتوں‌ سے متأثر ہوگئی تھی۔ دراصل چارلس مینسن کے گرد جمع ہونے والوں کی اکثریت ان نوجوانوں پر مشتمل تھی جو غیر روایتی طرزِ زندگی اپنانے کی شدید خواہش رکھتے تھے اور سماجی یا مذہبی اصول اور پابندیاں‌ انھیں پسند نہ تھیں۔ ان میں سے ایک گم راہ کُن خیالات رکھتے تھے اور وہ آسانی سے چارلس مینسن دامِ فریب میں‌ گرفتار ہوگئے۔ ان کا مسیحا اور گرُو ان نوجوانوں کے سامنے حق و باطل پر سوال اٹھاتا اور مذہبی تعلیمات یا تہذیب و تمدّن کے اصولوں‌ کی وہ تفہیم کرتا جو دراصل اس کے دل کی مراد ہوتی اور جس سے وہ لڑکے لڑکیاں‌ بھی خوش ہوسکتے تھے۔ انھیں امریکہ میں ‘مینسن فیملی’ کہا جانے لگا اور ان کی تعداد سو سے زائد تھی جس میں‌ اضافہ ہو رہا تھا۔

چارلس مینسن کوشش کرتا کہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہے اور سب اس کے تابع فرمان رہیں۔ اس کے لیے مینسن نے منشیات، موسیقی اور مذہبی معاملات میں تاویل اور من چاہی فکر کا پرچار کیا اور وہ وقت بھی آیا جب وہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی سوچ پر غلبہ پانے اور ان کے ارادوں کو اپنے حکم کی تعمیل میں‌ بدلنے پر قادر ہوگیا۔ یہی وہ وقت تھا جب چارلس مینسن خود کو پیغمبر سمجھنے لگا اور مینسن فیملی بھی اسی طرح سوچنے لگی تھی۔

1968ء میں‌ ‘دی بیٹلز’ کا ایک البم ریلیز ہوا جس کے گیتوں ‘ہیلٹر سکیلٹر’ بھی شامل تھا۔ اسی کی تشریح چارلس مینسن نے اپنے طریقے سے کی اور اپنے پیروکاروں‌ کو بتایا کہ بہت جلد ایک عالم گیر معرکہ شروع ہونے والا ہے جس میں تمام سیاہ فام، گوروں کے خلاف بغاوت کرکے ان سب کو ختم کر دیں گے۔ اس نے سب کو یہ یقین دلایا کہ اس نسل پرستانہ جنگ کے دوران وہ ایک محفوظ مقام پر رہیں‌ گے اور بعد میں‌ اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل کر سیاہ فاموں کو اپنا مطیع بنا لیں گے۔ اور پھر پوری دنیا پر ان کا راج ہوگا۔ لیکن چارلس مینسن کے مطابق جس معرکے کا سنہ 1969 کی گرمیوں میں‌ آغاز ہونا تھا، وہ نہ ہوا تو مینسن فیملی میں بے چینی بڑھنے لگی۔ تب، چارلس مینسن نے ایک ڈرامہ رچایا اور انھیں‌ کہا کہ سیاہ فام کبھی کوئی کام خود نہیں کرسکتے، انہیں اس کی ترغیب دلانا پڑتی ہے۔ اور ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ سیاہ فاموں کو بغاوت کے لیے اکسائیں۔ اس کام کے لیے چارلس مینسن نے سیلو ڈرائیو کا انتخاب کیا۔ لیکن یہ بات اہم ہے کہ اس علاقے کا انتخاب چارلس مینسن نے یونہی نہیں‌ کیا تھا۔

دراصل زمانۂ قید میں چارلس مینسن نے موسیقی سیکھنے کے ساتھ خود کو ایک بڑے امریکی موسیقار کے روپ میں دیکھنا شروع کردیا تھا، یہ سب اس کے اندر موجود شہرت کی خواہش، نام و نمود اور اثر و رسوخ کی آرزو کا عکس ہی تو تھا۔موسیقار بننے کے لیے چارلس مینسن نے باقاعدہ کوشش کی اور وہ کئی فن کاروں سے ملا بھی، لیکن وہ اس قابل نہیں‌ تھا، سو اس نے انکار سنا اور کسی نے اس کی حوصلہ افزائی نہ کی۔ وہ اسی کا بدلہ لینا چاہتا تھا فن کاروں سے اور شیرون ٹیٹ اور دیگر آرٹسٹ اسی نفرت کی بھینٹ چڑھے۔ اس کام کے لیے چارلس مینسن نے اپنے پیروکاروں کو استعمال کیا۔ بعد میں چارلس مینسن اور اس کے پیروکار گرفتار ہوئے اور یہ کہانی دنیا کو معلوم ہوئی۔

یہ قتل شاید رازِ سربستہ ہی رہتے، لیکن مینسن فیملی کی ایک رکن سوسن ایٹکنز جو قتل کی ان وارداتوں میں بھی پیش پیش رہی تھی، ایک معمولی جرم کی پاداش میں گرفتار ہوگئی۔ ایک روز اس نے ساتھی قیدیوں کے سامنے اپنے ان جرائم کی روداد انھیں سنائی اور بات پھیل گئی۔

مینسن فیملی کی رکن سوسن ایٹکنز جس کی وجہ سے پولیس قاتلوں تک پہنچی
چارلس مینسن اور سوسن ایٹکنز عدالت میں موجود ہیں

حکام کو معلوم ہوا تو سوسن سے پوچھ گچھ کی گئی اور تب اس نے سیلو ڈرائیو کے رہائشیوں کے قتل کا اعتراف کرلیا۔ اس گروہ کا آخری شکار شیرون ٹیٹ اور اس کے ساتھی تھے۔ سوسن نے بتایا کہ وہ مزید مشہور شخصیات کو قتل کرنا چاہتے تھے اور اس کا ایک مقصد دنیا کو حیران کرنا بھی تھا۔

اس اعتراف کے بعد یکم دسمبر 1969 میں‌ شاطر اور جنونی چارلس مینسن سمیت مینسن فیملی کے کئی اراکین کی گرفتاری عمل میں‌ آئی اور دنیا نے ان کا اصل روپ دیکھا۔ تاہم وہ سب اپنے گرُو کو بچانے کی کوشش کرتے رہے اور خود چارلس مینسن بھی باتیں‌ بناکر اور ہنسی ٹھٹھا کر کے پولیس کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا رہا۔ دوسری طرف یہ کیس امریکہ اور دنیا بھر میں‌ اخبارات میں جگہ پاتا رہا اور مقدمے کی کارروائی کے دوران بھی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا جو مینسن فیملی کے گرفتاری سے بچ جانے والے اراکین کی کارروائیوں کا نتیجہ تھے۔ عدالت میں بھی مینسن کی عقیدت مند نوجوان لڑکیاں اپنے گرُو کی حفاظت کے لیے لاطینی زبان میں کچھ پڑھتی بھی دکھائی دیتی تھیں۔

15 جنوری 1971 کو اس مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا اور چارلس مینسن کو ساتھیوں سمیت موت کی سزا ہوگئی۔ مگر 1972 میں یہ سزا تاحیات قید میں تبدیل کر دی گئی، کیوں کہ امریکی سپریم کورٹ نے سزائے موت کے قانون کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

چارلس مینسن سلاخوں کے پیچھے تو چلا گیا لیکن وہاں بھی اس نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ جیل کر اندر وہ منشیات کی ترسیل کا کام کرتا رہا۔ امریکہ میں چارلس مینسن کی مجرمانہ شہرت کے بعد اس پر کتابیں لکھی گئیں، ڈرامے اور موویز بنائیں گئیں۔ 2017ء میں یہ شیطان صفت انسان جیل ہی میں موت کے منہ میں‌ چلا گیا۔

رواں ماہ رہائی پانے والی وان ہوٹن کی بات کریں تو اب انھیں انٹرنیٹ استعمال کرنا سیکھنا ہے۔ وہ یہ بھی سیکھیں‌ گی کہ نقدی کے بغیر کیسے چیزیں خریدی جاسکتی ہیں۔ کیوں کہ وہ اتنے برس جیل میں رہی ہیں اور دنیا بہت بدل چکی ہے۔

وان ہوٹن جیل میں اور سماعت کے دوران قتل میں اپنے کردار اور مینسن کے ساتھ ملوث ہونے پر افسوس کا اظہار کرتی رہی ہیں اور یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ انھوں نے چارلس مینسن کو اپنی ’انفرادی سوچ‘ پر حاوی ہونے دیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں