لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے خواجہ سراؤں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام اور ان کے بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے دائر درخواست پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار خواجہ سرا وقار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ سرا بھی دیگر شہریوں کی طرح ملک میں برابر کے شہری ہیں لیکن ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کیا جارہا۔
درخواست میں کہا گیا کہ خواجہ سراؤں کو مردم شماری میں شمار کیا جاتا ہے نہ ہی قومی شناختی کارڈ کی سہولت میسر ہے۔ خواجہ سراؤں کی جنس کے متعلق کوئی خانہ بھی موجود نہیں ہے۔
تیسری جنس معاشرے کے لیے ناقابل قبول کیوں؟ *
انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں پر عمرہ کی ادائیگی پر پابندی کے سبب مذہبی امور کی ادائیگی کے لیے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
درخواست گزار کے مطابق خواجہ سراؤں کو درجہ دوئم کا شہری سمجھا جاتا ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جانا معمول کی بات ہے جبکہ پولیس سارے معاملے کی پشت پناہی کرتی ہے۔ درخواست میں اپیل کی گئی کہ عدالت خواجہ سراؤں کو تشدد سے بچانے کے لیے حکومت کو مؤثر قانون سازی کا حکم دے۔
عدالت میں مزید استدعا کی گئی کہ عدالت خواجہ سراؤں کے بنیادی اور مذہبی حقوق کو بحال کرنے کے بھی احکامات جاری کرے۔
عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں، نادرا سمیت فریقین کو 7 دسمبر کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔
اس سے قبل بھی پشاور میں مردم شماری کے فارم میں خواجہ سراؤں کا خانہ شامل نہ ہونے پر خواجہ سراؤں نے احتجاج کیا تھا اور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔
چند روز قبل سیالکوٹ میں چند با اثر افراد کی جانب سے خواجہ سرا پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس پر اعلیٰ حکام نے نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔
واقعہ کے خلاف خواجہ سراؤں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ سینیٹ میں جے یو آئی ف کے رہنما حافظ حمد اللہ نے بھی اس معاملے کو اٹھایا اور کہا تھا کہ خواجہ سرا ہونا جرم نہیں ہے۔ پاکستان میں خواجہ سراؤں کے ساتھ اچھوتوں والا سلوک ہوتا ہے۔