تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

لاہور ہائیکورٹ کا سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ 30 دن میں شائع کرنے کا حکم

لاہور: لاہور ہائکیورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ شائع کرنے کے حکم کیخلاف حکومتی اپیل مسترد کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ شائع کرنے کا حکم دیدیا۔

تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس عابد سعیدشیخ کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے حکومتی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے رپورٹ شائع کرنے کا سنگل بینچ کا حکم برقرار رکھا۔

لاہور ہائکیورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ شائع کرنے کے حکم کیخلاف حکومتی اپیل مسترد کردی اور باقرنجفی رپورٹ 30 دن میں شائع کرنے کا حکم دیدیا۔

عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ متاثرین کو فوری طور پر رپورٹ کی کاپی فراہم کی جائے۔

لاہور ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ انکوائری رپورٹ ماڈل ٹاون کےٹرائل پراثراندازنہیں ہوگی ، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ٹرائل قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھاجائے گا۔

باقرنجفی رپورٹ30دن میں شائع کرنےکا تحریری فیصلہ جاری


لاہور ہائیکورٹ نے باقرنجفی رپورٹ30دن میں شائع کرنےکا تحریری فیصلہ جاری کردیا، تحریری تفصیلی فیصلہ101صفحات پرمشتمل ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن متاثرین کو فوری طور پر رپورٹ فراہم کی جائے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ٹرائل جاری رہے گا۔

فیصلے میں لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کےسنگل بینچ کیخلاف استعمال الفاظ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ پنجاب حکومت نےاپیل میں جج کیخلاف بعض نامناسب الفاظ استعمال کیے، کسی بھی فیصلےپرتنقید کی جاسکتی ہے مگر جج کی ذات پرنہیں، ججز پر تنقید سے عوام میں عدلیہ کی ساکھ متاثرہوتی ہے۔

تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا کہ ماتحت عدالت میں ماڈل ٹاؤن کیس پر کوئی اثرنہیں پڑناچاہیے، 30دن کےاندرعوام کےلئے رپورٹ شائع کی جائے۔


مزید پڑھیں : سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ: پنجاب حکومت کی اپیل پر فیصلہ محفوظ


یاد رہے کہ جسٹس مظاہرعلی اکبر نے متاثرین کی درخواست پررپورٹ شائع کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد حکومت نےعدالتی حکم کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔

وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 24نومبر کو عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جبکہ  ہائیکورٹ میں اس معاملے سے متعلق23 سے زائد سماعتیں ہوچکی ہیں۔

دوسری جانب پنجاب حکومت نے موقف اختیار کیا کہ سنگل بنچ نے حکومتی موقف سنے بغیر فیصلہ دیا جبکہ انکوائری حکومت نے حقائق جاننے کے لیے کروائی اسے منظر عام پر لانا یا نہ لانا حکومت کی صوابدید ہے اس لیے سنگل بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

عدالتی فیصلے کے بعد متاثرین اور عوامی تحریک کے رہنماوں نے رپورٹ کے حصول کے لیے درخواست ہوم سیکرٹری کے دفتر جمع کروا دی ہے۔

واضح رہے کہ 3 سال قبل لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی جانب سے منہاج القرآن مرکز کے ارد گرد سے رکاوٹیں ہٹانے کے نام پر آپریشن کیا گیا جہاں کارکنوں اور پولیس کے درمیان سخت مزاحمت ہوئی۔

اس دوران پولیس کے شدید لاٹھی چارج کے سبب 14 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

اسی روزایس ایچ او کی مدعیت میں ڈاکٹرطاہرالقادری کے بیٹے حسین محی الدین سمیت 56 اورتین ہزار نامعلوم افراد خلاف ایف آئی آر کاٹ دی گئی ‌تھی، معاملہ سنگین ہوا توحکومت نےاکیس جون دو ہزارچودہ کو صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ سے استعفیٰ لے لیا مگرملزمان کا تعین نہ کیا جاسکا۔

ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد کی طرف قصاص مارچ کیا، جس کے بعد دھرنے کے نتیجے میں ماڈل ٹاون واقعہ کی ایف آئی آر درج ہوئی، ایف آئی آر میں وزیراعظم نواز شریف ، وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور متعدد وزراء کو نامزد کیا گیا۔

عوامی تحریک نے وزیراعلی پنجاب کی بنائی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے ماننے سے انکارکر دیا، جے آئی ٹی نے چند پولیس والوں کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ایف آئی آر میں نامزد تمام افراد کو بے گناہ قرار دیا گیا۔ یوں پنجاب کی وزرات قانون کا قلم دان ایک بار پھر رانا ثنااللہ کےسپرد کردیا گیا۔

پنجاب حکومت کی ہدایت پر 5 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ) تشکیل دی گئی تھی، جس کے ممبران میں کوئٹہ پولیس چیف عبدالرزاق چیمہ، آئی ایس آئی کے کرنل احمد بلال، آئی بی کے ڈائریکٹر محمد علی، ایس ایس پی رانا شہزاد اکبر اور ڈی ایس پی سی آئی اے خالد ابوبکر شامل ہیں۔

سانحے میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے سابق ایس پی سیکیورٹی علی سلمان بیرون ملک پرواز کرچکے ہیں جبکہ ایک انسپکٹر عامر سلیم سمیت پانچ پولیس اہلکار جیل میں قید ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے تمام ممبران نے واقعے کے مقدمے میں نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب اور سابق وزیر قانون کے خلاف موجود الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے گناہ قرار دیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کلین چٹ دیئے جانے پر پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئےملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔

اس موقع پر عوامی تحریک کی طرف سے کچھ مطالبات بھی پیش کیے گئے۔ اس کیس کو فوجی عدالت میں منتقل کیا جائے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کو شائع کیا جائے۔ ایک نئی ،غیر جانبدار جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔ چونکہ پولیس ماڈل ٹاؤن سانحے میں ملوث تھی، لہذا اسے جے آئی ٹی کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔

دھرنے کے دوران ہم سے معاہدہ کیا گیا تھا کہ باہمی معاہدے کے تحت جے آئی ٹی بنائی جائے گی، لیکن جے آئی ٹی بنانے سے پہلے ہمارے تحفظات نہیں سنے گئے۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئرکریں۔

Comments

- Advertisement -
عابد خان
عابد خان
عابد خان اے آروائی نیوز سے وابستہ صحافی ہیں اور عدالتوں سے متعلق رپورٹنگ میں مہارت کے حامل ہیں