لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف ، مریم نواز سمیت سولہ ن لیگی رہنماوں کی عدلیہ مخالف تقاریر کی نشریات پر 15 دن کے لیے عبوری پابندی عائد کردی اور پیمراء کواس حوالے سے ملنے والی شکایات پر دو ہفتوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئےکہا کہا پیمراکی نگرانی کے بغیر تقاریر نشر نہیں ہوں گی۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے نواز شریف اور مریم نواز شریف سمیت دیگر افراد کے خلاف عدلیہ مخالف تقاریر کی درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواست گزاروں کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیمرا عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے سے روکنے میں ناکام رہا، اس حوالے سے متعدد درخواستیں دیں مگر اس پر کارروائی کی، آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت آزادی اظہار رائے کا حق قانون اور ضابطے سے مشروط ہے۔
دوران سماعت نواز شریف کے وکیل اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ کی دوبارہ فل بنچ کی کارروائی روکنے کی استدعا کی، اے کے ڈوگر نے موقف اختیار کیا کہ یہ کارروائی عدالت کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہیں۔
جسٹس عاطر محمود نے ریمارکس دیے ابھی اس کیس میں نواز شریف فریق نہیں بنے، نہ ہی ان کو نوٹس ہوا ہے۔
پیمرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ پیمرا کی اتهارٹی پر غیرضروری اعتراضات اٹهائے جا رہے ہیں، پیمرا نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے عدلیہ مخالف تقاریر کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ دیا، تاہم کسی کی تقاریر پر پابندی عائد کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ پیمرا نے عدلیہ مخالف تقاریر کے خلاف درخواست تکنیکی بنیادوں پر خارج کر دی کیا درخواست خارج کر کے عدلیہ کی توہین کی اجازت دے دی گئی۔
فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے عبوری طور پر پیمرا کو نواز شریف مریم نواز سمیت سولہ اراکین اسمبلی کی توہین آمیز نشریات روکنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے پیمراء کو عدلیہ مخالف تقاریر سے متعلق درخواستوں پر پندرہ روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کر دی۔
عدالت نے حکم دیا کہ پیمرا ان تقاریر کی سخت مانیٹرینگ کرے اور رپورٹ عدالت میں جمع کروائے فل بنچ خود بھی اس عمل کی نگرانی کرے گا جبکہ عدالت نے عدالتی دائرہ اختیار کے خلاف نوازشریف کی درخواست مسترد کر دی۔