طرابلس: لیبیا میں تباہ کُن سیلاب کے بعد حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں، مظاہرین نے سرکاری عمارتوں اور درنہ کے میئر کے گھر کو آگ لگا دی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سیلاب اور ڈیم ٹوٹنے کی وجہ سے لیبیا کے تباہ شدہ شہر درنہ کے متاثرہ باسیوں نے حکومت کے خلاف شدید احتجاج شروع کر دیا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی غفلت سے ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، درنہ ڈیم ٹوٹنے کی بین الاقوامی سطح پر تحیقیقات کرائی جائیں، ان کا مطالبہ تھا کہ مشرقی لیبیا کے پارلیمنٹ کے سربراہ صالح اسر اور دیگر کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
پیر کے روز مظاہرین نے شہر کی الصحابہ مسجد کے باہر مظاہرہ کیا اور کچھ لوگ اس کی چھت پر اس کے سنہری گنبد کے سامنے بیٹھ گئے، مظاہرین کا کہنا تھا کہ تمام لیبیائی بھائی بھائی ہیں، صالح اسر ہم آپ کو نہیں جانتے۔ شام کے وقت مشتعل مظاہرین نے درنہ کے میئر عبدالمنعم الغیثی کے گھر کو آگ لگا دی۔
مشرقی لیبیا کی حکومت کے ایک وزیر ابو سخاوت نے میڈیا کو بتایا کہ میئر غیثی کو ان کے عہدے سے معطل کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ لیبیا کو برسوں سے سیاسی انتشار کا سامنا ہے، اس وقت بھی لیبیا میں دو حریف حکومتیں قائم ہیں، ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ دارالحکومت طرابلس میں، اور دوسری خود ساختہ حکومت مشرقی شہر بن غازی میں، جس کی پشت پناہی جنرل خلیفہ حفتر کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ بارشوں اور ڈیم ٹوٹنے سے سیلابی ریلے نے درنہ شہر کو نیست و نابود کر دیا ہے، سوا لاکھ آبادی والے شہر کی سیکڑوں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں، 11 ہزار تین سو افراد لقمہ اجل بنے اور ہزاروں افراد تاحال لاپتا ہیں۔