تازہ ترین

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا، میتھیو ملر

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہا ہے...

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

گوانتا نامو جیل کے بعد: دکھ اور اذیت ناک یادوں کی داستان

کابل: ان 2 افغان دوستوں نے بدترین اور اذیت ناک مظالم کے حوالے سے جانی جانے والی بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتا نامو میں ایک ساتھ دن گزارے، ایک جیسے مظالم سہے، ایک جیسی اذیتوں سے گزرے، لیکن رہائی کے بعد دونوں نے الگ الگ انتہاؤں پر واقع دو مختلف راستے چنے۔

ایک دوست نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی، جبکہ دوسرا امریکی سرپرستی میں سرگرم اس افغان فوج میں شامل ہوگیا جو شدت پسندوں کی سرکوبی کے لیے برسر پیکار ہے۔

یہ کہانی حاجی غالب اور عبد الرحیم مسلم دوست نامی دو دوستوں کی ہے۔ 5 سال تک گوانتا نامو میں قید رہنے والا حاجی غالب بھیگی آنکھوں کے ساتھ کہتا ہے، ’گوانتا نامو اس زمین پر بدترین جگہ ہے‘۔

وہ کہتا ہے، ’ہر روز میں اپنے آپ سے وہی سوالات بار بار پوچھتا ہوں، مجھے کیوں قید کیا گیا تھا؟ میری زندگی کے 5 قیمتی سال کیوں برباد کیے گئے؟ کیا اس کا کوئی انصاف، کوئی کفارہ ہوسکتا ہے‘؟

مزید پڑھیں: افغان قیدی خواتین کی دردناک داستان

سنہ 2003 تک غالب افغان پولیس میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا تھا۔ وہ ایک طالبان دشمن کمانڈر کے طور پر مشہور تھا۔ پھر اچانک اس پر کچھ مشکوک سرگرمیوں اور باغیوں سے رابطوں کا الزام لگایا گیا۔

افغان حکام نے نہایت ذلت آمیز طریقے سے غالب کو اس کی نوکری سے برخاست کیا، اس کا یونیفارم سر عام پھاڑ کر اتارا گیا اور بعد ازاں اسے گوانتا نامو بھیج دیا گیا۔ سال پر سال گزرتے گئے، یہاں تک کہ سنہ 2007 میں امریکی فوج کو یقین ہوگیا کہ غالب کا طالبان یا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں۔

afghan-2

جب وہ آزاد فضا میں واپس آیا تو منتقم جذبات کے ساتھ اس نے ان کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا جو اس کی اصل بربادی کے ذمہ دار تھے، یعنی طالبان اور داعش۔ اس کی غیر موجودگی میں داعش نامی عفریت بھی افغانستان میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا۔

غالب کو پتہ چلا کہ 2 سال قبل رہا کیا جانے والا اس کا دوست عبد الرحیم اب افغان صوبے ننگر ہار میں داعش کا اعلیٰ عہدے دار تھا۔

عبد الرحیم کے ساتھ گوانتا نامو میں گزارے گئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے غالب بتاتا ہے، ’عبد الرحیم میں خداد قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ قید کے دوران اس کا زیادہ تر وقت عبادت کرتے ہوئے اور قیدیوں کو جہاد کی تعلیم دیتے ہوئے گزرتا تھا۔ اس کا وعظ سن کر قیدی زار زار روتے تھے‘۔

مزید پڑھیں: داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر

غالب کے مطابق عبد الرحیم شاعر بھی تھا۔ جیل میں لکھنے کے لیے کوئی شے میسر نہیں تھی، لہٰذا عبد الرحیم چائے کے کپوں پر اپنے اشعار لکھا کرتا تھا۔

عبد الرحیم جیسے اور بھی کئی قیدی تھے جو شاعری کیا کرتے تھے۔ ایک امریکی پروفیسر مارک فالکوف نے ان کی شاعری کو جمع کر کے ایک کتاب ’پویمز آف گوانتا نامو‘ بھی ترتیب دی۔

اس کتاب میں عبد الرحیم کا ایک شعر درج ہے، ’غور کرو! کوئی شخص اپنے آپ کو یا کسی دوسرے کو مارنے پر کیوں مجبور ہوتا ہے؟ کیا جبر، جبر کرنے والے کے خلاف انتقام پر مجبور نہیں کرتا‘؟

غالب کا ایک اور عزیز اس کے ساتھ گوانتا نامو میں قید تھا۔ وہاں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اب وہ اپنے آبائی پیشے زراعت کی طرف لوٹ چکا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’گوانتا نامو دہشت گردی کی کیاری ہے۔ یہ عبدالرحیم جیسے جنونیوں کے جنون کے مہمیز کرنے اور انہیں منطقی بنانے کا سبب بنتی ہے‘۔

گوانتا نامو کے بے گناہ قیدی

سنہ 2002 میں قائم کیے جانے والے اس قید خانے میں نصف سے زائد قیدی افغان ہیں۔ ان قیدیوں پر غیر انسانی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر کسی غلط فہمی یا محض شک کی بنا پر اٹھائے گئے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جن کے دیرینہ دشمنوں نے ذاتی دشمنی کی بنا پر حکام کو گمراہ کن معلومات فراہم کیں کہ ان کا طالبان سے رابطہ ہے۔

گو سابق صدر بارک اوباما نے گوانتا نامو کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم موجودہ صدر ٹرمپ ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، بلکہ وہ اس جیل خانے میں مزید توسیع کر کے اس میں نئے قیدی بھرنا چاہتے ہیں۔

غالب کہتے ہیں، ’امریکا بے شک گوانتا نامو جیل کو ایک ضرورت سمجھتا ہو، لیکن اسے محب وطن افراد اور شدت پسندوں کے درمیان فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ہر افغان محب وطن اپنے ملک میں غیر ملکی مداخلت کو ناپسند کرتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ دہشت گردی کی بھی حمایت کرتا ہو‘۔

afghan-3

خود غالب بھی طالبان سے سخت نفرت کرتا ہے اور وہ ان کے خلاف لڑنے والی ہر طاقت کا ساتھ دینے کو تیار ہے۔ لیکن اس عزم کی اسے نہایت المناک قیمت چکانی پڑی۔

سنہ 2013 میں طالبان نے اس کے بھائی کو اس وقت قتل کردیا جب وہ صوبہ ننگر ہار میں ایک ہائی وے پروجیکٹ کی نگرانی پر معمور تھا۔ اس کے صرف چند ہفتوں بعد جب ایک دن اس کا خاندان اس کے بھائی کی قبر پر جمع تھا، طالبان کی جانب سے وہاں نصب کیا ہوا بم پھٹ گیا جس میں غالب کی 2 بیویوں سمیت اس کے خاندان کے 18 افراد مارے گئے۔

وہ کہتا ہے، ’عبدالرحیم اور اس جیسے افراد غیر ملکیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، لیکن وہ افغانیوں کو ہی ختم کر رہے ہیں۔ میرا جب بھی اس سے سامنا ہوگا، میں اسے زندہ نہیں جانے دوں گا‘۔

Comments

- Advertisement -