’انجیر کے درخت پر ہر شاخ تازہ جامنی انجیروں سے لدی ہوئی ہے، اسے کسی ایک انجیر کا انتخاب کرنا ہے اور اس انتخاب نے اسے سخت تذبذب میں ڈال رکھا ہے۔
ہر انجیر دوسری سے لذیذ اور خوش نما دکھائی دے رہی ہے اور اس کے انتخاب کو مشکل بنا رہی ہے، لیکن ابھی وہ کوئی ایک انجیر منتخب کر کے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہی ہے، کہ تمام انجیریں ایک بعد ایک درخت سے گرنے لگتی ہیں اور گرتے ہی سوکھ جاتی ہیں، اس نے انہیں چننے میں اتنی دیر لگائی کہ ان کی تازگی ختم ہوگئی اور وہ بدمزہ ہوگئیں۔‘
یہ منظر معروف امریکی شاعر سلویا پلاتھ کے واحد ناول دا بیل جار کا ہے اور یہ زندگی کی تمثیل ہے۔ عورت کی زندگی کے بے شمار رنگ الگ الگ انجیروں کی صورت اس کے سامنے آتے ہیں اور اسے ان میں سے کسی ایک کو چننا ہوتا ہے۔
ایک انجیر شوہر کا گھر اور گھریلو زندگی ہے، دوسری انجیر شاعر ہونا ہے، تیسری انجیر اپنی دلچسپی کے مطابق کسی شعبے میں جانا اور اس کی ماہر بننا ہے، چوتھی انجیر دنیا کے سفر پر نکلنا ہے، اور اوپر کی شاخوں پر مزید کئی خوش نما انجیریں جو ناقابل رسائی ہیں، لیکن اسے کوئی ایک انجیر چننی ہے۔
اس تمثیل میں دراصل سلویا نے بیسویں صدی کے محدود معاشرے میں جینے والی ایک عورت کی افسردگی بیان کی ہے، جس کے خیال لامحدود لیکن زندگی محدود ہے۔ جو کوئی فیصلہ کر بھی لے، تو اسے اس کے غلط ہونے کا خوف اور دوسری انجیر نہ چننے کا قلق ہے۔
اس نے ایک بار لکھا، کیا میں لباس کی طرح زندگی کو بھی بدل بدل کر دیکھ سکتی ہوں کہ کون سی میرے لیے موزوں ترین ہے؟
جسے اس بات کی خلش ہے، کہ میں زندگی کے ہر رنگ اور ہر تنوع کو بھرپور طریقے سے محسوس کرنا چاہتی ہوں، لیکن میں خوفناک حد تک محدود ہوں۔
سلویا پلاتھ 27 اکتوبر 1932 کو امریکی ریاست میساچوسٹس میں پیدا ہوئی، اس کے والد بوسٹن یونیورسٹی میں بیالوجی کے پروفیسر تھے، لیکن جب سلویا صرف 8 برس کی تھی تو وہ چل بسے۔
والد کی موت نے سلویا کو گہرا جذباتی و نفسیاتی صدمہ پہنچایا اور غالباً یہیں سے اس کی زندگی میں ایک طویل اور عذاب ناک ڈپریشن کی بنیاد پڑی، اس ڈپریشن نے اس کی زندگی کے سارے رنگوں کو پھیکا کردیا اور پیچھے رہ گئی اتھاہ سیاہ تاریکی جس میں وہ ساری زندگی ڈوبتی ابھرتی رہی۔
11 برس کی عمر سے سلویا نے ڈائری لکھنی شروع کردی تھی اور اپنے احساسات اور جذبات کو ایسے خوبصورت جملوں میں پرویا جنہیں پڑھ کر کوئی بھی اندازہ کر سکتا تھا کہ یہ بچی بڑی ہو کر لفظوں سے کھیلنے والی جادوگر بنے گی۔
18 برس کی عمر میں اس کی پہلی باقاعدہ نظم ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئی، بعد میں سلویا نے نثر بھی لکھا اور ایک ناول اور کچھ افسانے تحریر کیے۔
دا بیل جار
سنہ 1953 میں کالج کی تعلیم کے دوران سلویا نے نیویارک میں میڈموزیل میگزین میں ملازمت کی، فیمنسٹ نظریات کا حامل یہ میگزین خواتین میں بے حد مقبول ہوا اور یہاں گزارے گئے وقت نے سلویا کے ادبی سفر کا تعین کیا۔
سلویا کے واحد ناول دا بیل جار کی داغ بیل اسی ملازمت نے ڈال دی تھی جب اس نے وہاں اعلیٰ حس مزاح اور بلند معیار سوچ رکھنے والے افراد اور خصوصاً خواتین کے ساتھ وقت گزارا۔
دا بیل جار کی کہانی ایسٹر گرین ووڈ نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو خطرناک حد تک ذہین اور بہترین حس مزاح کی حامل لیکن شدید ڈپریشن کا شکار ہے، سلویا نے دراصل اپنی زندگی کی کہانی ایسٹر کی صورت میں پیش کی اور اس میں کچھ افسانوی رنگ بھی اختیار کیا۔
سلویا کی حس ظرافت اس قدر ذومعنی تھی کہ سننے والے کو ہنسنے کے بہت دیر بعد علم ہوتا کہ کہنے والا اس کا تمسخر اڑا گیا، اس نے یہی انداز اپنے ناول کی ہیروئن کا بھی رکھا جو بہت مقبول ہوا۔
اس کے ناول نے اس وقت کی عورت کے لیے مروجہ اصول، مرد کی کھلی چھوٹ اور معاشرے کے تضادات پر بہت بے باک انداز میں سوال اٹھائے۔
یہ ناول جنوری 1963 میں سلویا کی موت سے صرف ایک ماہ قبل اس کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔
ذہنی خلجان، خودکشی کی کوشش اور شاعری
سلویا کی اصل وجہ شہرت اس کی نظمیں ہیں جو اس کے ذہنی خلفشار کا تحفہ تھیں، اس کے اپنے اندر کی عکاس نظمیں جو بھیانک خالی پن، عام لوگوں کی ڈگر سے ہٹ کر مشاہدے اور ذہانت و ڈپریشن کی پیدا کردہ مختلف ڈھب کی سوچ کی تصویر ہیں۔
اس کی شاعری نے عورت کے دکھوں، ان کہے جذبات اور جنسیت کے گرد قائم خاموشی کا حصار توڑا اور اس کا نڈر اظہار کیا۔
ذہنی خلجان اور ڈپریشن کے باعث سلویا ہمیشہ بے چینی کا شکار رہی، اس میں خودکشی کا رجحان بھی موجود تھا اور عام افراد کے برعکس موت اسے خوفزدہ کرنے والی شے نہیں لگتی تھی۔
سنہ 1954 میں وہ ایک بار خودکشی کی کوشش بھی کر چکی تھی جس کے بعد کئی ماہ اسے نفسیاتی اسپتال میں گزارنے پڑے، ڈپریشن کی گولیاں تو ہمیشہ ہی اس کی ساتھی رہیں۔
اس کی ایک نہایت مشہور نظم لیڈی لازرس جسے شاہکار کی حیثیت حاصل ہے، بائبل کے ایک کردار پر مبنی ہے جو فنا ہو کر پھر سے جی اٹھتا ہے۔ سلویا نے یہ نظم اپنی موت سے چند ماہ قبل اس وقت لکھی جب وہ اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہی تھی۔
خود کو لیڈی لازرس سے تشبیہ دیتے ہوئے اس نے لکھا، مرنا بھی ایک آرٹ ہے۔
اس نے ایک بار اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں لکھا، میں یا تو لمحے بھر میں بے حد خوش اور سرگرم رہ سکتی ہوں، یا پھر بے حد سست اور غمگین ہو سکتی ہوں، ان دونوں کیفیات کے بیچ معلق رہنا مجھے پاگل بنا دے گا۔
ایک بار اس نے کہا، کیا سوچوں سے باہر جانے کا کوئی راستہ ہے؟
محبت، جو اسے موت تک لے گئی
سنہ 1956 میں سلویا کی ملاقات انگریزی کے معروف شاعر ٹیڈ ہیوز سے ہوئی، دونوں ایک دوسرے سے متاثر اور پھر ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوئے اور محبت ناموں سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔
جلد ہی دونوں میں اختلافات سامنے آنے لگے۔ اس دوران دونوں کے یہاں ایک بیٹی فریڈا اور بیٹا نکولس پیدا ہوئے۔
لیکن اصل طوفان شادی کے 6 برس بعد تب آیا جب یہ دونوں ڈیوڈ وول اور آسیا وول نامی ایک جوڑے کے گھر کے ایک حصے میں کرائے پر رہنے لگے اور ٹیڈ آسیا کی زلف کے اسیر ہوگئے۔
سلویا کو جب ٹیڈ کی اس بے وفائی کا علم ہو تو وہ بے حد دل برداشتہ اور رنجیدہ ہوئی، شوہر سے جھگڑے کے بعد سنہ 1962 میں وہ بچوں کو لے کر انگلینڈ چلی آئی، یہاں نئی زندگی کی مشکلات، ڈپریشن اور نفسیاتی دوروں کا جن منہ کھولے کھڑا تھا اور اب سلویا کے لیے ان سے نمٹنا آسان نہ تھا۔
اپنے ذہنی خلجان اور غم کی کیفیت میں سلویا نے ایک کے بعد ایک نظم لکھ ڈالی، لیڈی لازرس انہی دنوں کی تخلیق ہے۔ ان دنوں میں تخلیق کی گئی اس کی نظموں کا مجموعہ بعد از مرگ ایریل کے نام سے شائع ہوا۔
ان دنوں سلویا کے ڈاکٹر نے اس کی ذہنی کیفیت کے پیش نظر اسے اسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا لیکن سلویا نے اینٹی ڈپریسنٹس تک کھانا چھوڑ دی تھیں۔
5 ماہ تک رنج، تنہائی اور ذہنی خلفشار سے لڑتے رہنے کے بعد بالآخر ایک دن سلویا نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے، فروری 1963 کی ایک صبح، جب اس کے دونوں بچے سو رہے تھے، اس نے بچوں کا ناشتہ بنا کر ان کے سرہانے رکھا اور گیس اوون کھول کر اپنا سر اس میں گھسا دیا، کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر نے جلد اسے تمام تکلیفوں سے نجات دلا دی۔
بچے اٹھے تو وہ اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے کھو چکے تھے۔ اپنی موت کے وقت سلویا کی عمر صرف 31 برس تھی۔
سلویا کی زیادہ تر نظمیں ان کی موت کے بعد شائع ہوئیں جنہیں عام لوگوں نے بھی پسند کیا اور ادبی حلقے بھی ان کی اختراعی سوچ اور بے باکی پر دم بخود رہ گئے، سنہ 1971 میں ان کا ناول دا بیل جار ان کے اصل نام سے شائع ہوا۔
سنہ 1982 میں سلویا کی نظموں کے مجموعے کو پلٹزر پوئٹری پرائز بھی ملا۔
سلویا کی موت ان کے شوہر ٹیڈ کے لیے بھی مشکلات لے آئی، ادبی طبقے کی خواتین نے انہیں سلویا کی خودکشی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ٹیڈ کو قتل کی دھمکیاں تک موصول ہوئیں۔
دوسری طرف آسیا وول بھی احساس جرم کا شکار رہی اور 6 سال بعد اس نے بالکل اسی طرح خودکشی کرلی جیسے سلویا نے کی تھی، ساتھ ہی اپنی 4 سالہ بیٹی کو بھی مار ڈالا، گیس سے بھرے بند کچن سے دونوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔
سلویا کا ذہنی خلفشار اور خودکشی کا رجحان صرف اس تک محدود نہ رہا، اس کے بچوں نے اس کی دیوانگی، ذہانت اور فن سب ہی وراثت میں پایا، بیٹی فریڈا شاعر اور مصور بنی، بیٹے نکولس نے جو ایک پروفیسر تھا، سنہ 2009 میں 47 سال کی عمر میں خودکشی کرلی۔
سلویا نے ایک بار کہا تھا، مجھے ان چیزوں کی خواہش ہے جو مجھے آخر میں مار ڈالیں گی، کون جانے کہ اسے خوشی کی خواہش تھی جس کی تلاش میں وہ تمام عمر سرگرداں رہی، یا پھر یہ اذیت اور بے چینی خود اسی کی منتخب کردہ تھی جو اسے موت تک لے آئی۔