تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

صحرا کا شیر عمر مختار جس نے آزادی کی خاطر موت کو گلے لگایا

1931ء میں آج ہی کے دن عمر مختار کو سرِ عام پھانسی دے دی گئی تھی۔لگ بھگ 20 ہزار افراد نے دیکھا کہ "صحرا کا شیر” ایک شانِ بے نیازی سے پھانسی گھاٹ پر آیا اور موت کو گلے لگا لیا۔ ان کا جرم اٹلی کے خلاف لیبیا کی آزادی کی جنگ لڑنا تھا۔

مشہور شاعر فیض احمد فیض کے ایک مشہور شعر کا مصرع ہے:

"جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے…”

عمر مختار کی زندگی کے آخری لمحات اسی مصرع کی تفسیر ہیں۔ اس مجاہدِ آزادی کی گرفتاری بھی بجائے خود ایک تاریخی موقع تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیبیا کا یہ مجاہدِ آزادی کس طرح دشمن کے ایک عرصہ تک باعثِ آزار اور ناقابلِ شکست بنا رہا، کیوں کہ اطالوی فوجیوں اور افسروں نے عمر مختار کو گرفتار کرنے کے بعد فخریہ انداز میں ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور اپنے اس "کارنامے” کو تاریخ کے اوراق میں‌ لکھوا لیا، لیکن وہ ایسے بدقسمت تھے کہ شاید ہی آج انھیں کوئی یاد کرتا ہے جب کہ عمر مختار آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔

لیبیا، شمالی افریقا کا ایک ملک ہے جس پر 1911ء میں اٹلی نے قبضہ کرلیا تھا۔ عمر مختار کی قیادت میں وہاں جنگِ آزادی لڑی گئی۔ 20 برس تک عمر مختار اور ان کے ساتھی محاذ پر دشمن کو خاک و خون میں نہلاتے رہے۔

20 اگست 1858ء کو عمر مختار نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا پورا نام عمرالمختار محمد بن فرحات تھا۔ کم سنی میں والد کا انتقال ہو گیا اور یوں ابتدائی ایّامِ زیست غربت اور افلاس میں گزرے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے عمر مختار مسجد جاتے رہے اور بعد میں ایک جامعہ میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ قرآنِ پاک کے عالم اور امام بن گئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے اپنے معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں اور حالات سے آگاہی حاصل کی۔ ان کے سماجی شعور اور سیاسی بصیرت کے باعث انھیں‌ قبائلی تنازعات نمٹانے کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ بعد ازاں وہ جغبوب میں سنوسیہ تحریک کے وابستہ ہوگئے۔

اکتوبر 1911ء میں اٹلی اور عثمانی سلطنت میں جنگ کے دوران اٹلی کی بحریہ لیبیا کے ساحلوں تک پہنچ گئی۔ اٹلی کے امیر البحر لیوگی فراویلی نے ترکی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ علاقہ اٹلی کے حوالے کر دے ورنہ طرابلس اور بن غازی کو تباہ و برباد کردیا جائے گا۔ ترکوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد اٹلی نے ان شہروں پر تین دن تک بم باری کی اور اعلان کیا کہ طرابلس کے لوگ اٹلی کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد اٹلی کی فوجوں اور لیبیا کی جماعتوں کے مابین مسلح لڑائیاں شروع ہو گئیں۔

عمر مختار صحرائی علاقوں سے خوب واقف تھے اور جنگ کے رموز اور جغرافیائی امور کی بھی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ انھیں صحرائی جنگ میں مہارت حاصل تھی، اور اٹلی کی فوج کے لیے وہ ایک بڑی مشکل اور رکاوٹ بن گئے تھے۔ عمر مختار نے اپنے چھوٹے گروپوں کے ذریعے اٹلی کی افواج پر کام یاب حملے کیے۔

ان کے جاں نثاروں نے بڑی مہارت سے حریفوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور فوجیوں پر حملے کرنے کے ساتھ گوریلا جنگ کے وہ تمام حربے استعمال کیے جن سے دشمن فوج کو زبردست نقصان پہنچا۔ عمر مختار کو ستمبر میں ایک حملے کے بعد زخمی حالت میں دشمن نے گرفتار کر لیا۔ اس وقت اٹلی میں مسولینی کی حکومت تھی۔

لیبیا کے اس مجاہد پر اٹلی کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ عمر مختار کو پھانسی کے بعد اٹلی کی امید اور توقعات کے برعکس مزاحمت کی تحریک کی شدت آگئی اور 1951ء میں لیبیا کو آزادی نصیب ہوئی۔

عمر مختار کی اس جدوجہد اور شخصیت پر ہالی وڈ میں فلم بھی بنائی گئی تھی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ’’عمر مختار‘‘ کا کردار اداکار انتھونی کوئن نے نبھایا تھا۔ عمر مختار صحرا کا شیر کے نام سے مشہور ہیں۔

Comments

- Advertisement -