کسی بھی انسان کی زندگی میں تیز رفتاری، اور عقلمندی دو ایسے عوامل ہیں جو اس کی بقا کے ضامن ثابت ہوتے ہیں۔ جب زندگی اور موت کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو کوئی بھی ایسا کام کر گزرتا ہے جس کی عام حالات میں اس سے توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔
ایسا ہی کچھ احوال جانوروں کا بھی ہے جو اپنی محدود صلاحیت و عقل میں اپنی بقا کی راہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جانور انسانوں کی طرح اشرف المخلوقات نہیں لہٰذا قدرت نے انہیں فطری طور پر ایسے اعضا و صلاحیتیں دی ہوئی ہیں جو انہیں مشکل حالات سے بچا سکتی ہیں۔
ایسا ہی ایک منظر اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک شیر نے اپنے سے کمزور کچھوے کو اپنا نوالہ بنانے کی کوشش کی۔ اپنی سست رفتاری کے لیے مشہور کچھوا بھاگ کر یا چھپ کر اپنی جان کیا بچاتا، ایسے میں خدا کا دیا ہوا ایک تحفہ اس کے کام آگیا۔
کچھوے نے اپنی ڈھال یعنی سخت خول میں پناہ لے لی۔ شیر نے بہت کوشش کی کہ خول کے اندر سے کچھوے کا منہ پکڑ کر باہر نکالے لیکن سخت خول اس کی راہ کی رکاوٹ بنا رہا۔
تھک ہار کر شیر نے کچھوے کو، جو اس کے لیے اب ایک پتھر جیسا تھا، پھینکا اور دوسرے شکار کی تلاش میں چل پڑا۔ کچھوے نے کچھ دیر بعد خول سے اپنا منہ اور بازو نکالا اور پھر سے اپنی منزل کی جانب رینگنے لگا۔