ویسے تو زمانہ قدیم کے 7 عظیم تعمیراتی شاہکاروں کو دنیا کے سات عجوبے کہا جاتا ہے، عجائبات کی یہ فہرست 305 سے 204 قبل مسیح کے دوران ترتیب دی گئی تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی چلی گئی۔
ان 7 عجائبات عالم میں اہرام مصر، بابل کے معلق باغات، معبد آرتمیس، زیوس کا مجسمہ، موسولس کا مزار، روڈس کا مجسمہ اور اسکندریہ کا روشن مینار شامل ہیں۔ ان تمام عمارتوں میں سے صرف اہرام مصر اب تک قائم ہیں، جبکہ بابل کے باغات کی تاحال موجودگی ثابت نہیں۔
سال 2000 میں سوئس فاؤنڈیشن نامی تنظیم نے دنیا کے سات نئے عجائبات کے انتخاب کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا، چونکہ اصل سات عجائبات کی فہرست دوسری صدی قبل مسیح میں ترتیب دی گئی تھی اور ان میں سے صرف ایک (اہرامِ مصر) آج بھی موجود ہے، اس لیے اس فہرست کو اپ ڈیٹ کرنا ضروری محسوس کیا گیا۔
دنیا بھر کے لوگوں نے اس مہم میں زبردست دلچسپی لی اور انٹرنیٹ اور ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے 100 ملین سے زائد ووٹ ڈالے گئے۔ سال 2007 میں اس حتمی فہرست کا باقاعدہ اعلان کیا گیا، جس پر کچھ لوگوں نے اطمینان کا اظہار جبکہ کچھ نے اس پر اعتراض بھی کیا کیونکہ یونان کے تاریخی مقام ایکروپولیس جیسے نمایاں مقامات فہرست میں شامل نہیں ہو سکے۔ کیا آپ دنیا کے ان سات نئے عجوبوں کی فہرست سے متفق ہیں؟
دیوارِ چین
دیوارِ چین دنیا کے سب سے بڑے تعمیراتی منصوبوں میں سے ایک ہے، جس کی عمومی لمبائی تقریباً 5,500 میل (8,850 کلومیٹر) بتائی جاتی ہے، تاہم کچھ چینی ماہرین کے مطابق یہ 13,170 میل (21,200 کلومیٹر) طویل ہے۔
اس کی تعمیر 7ویں صدی قبل مسیح میں شروع ہوئی اور تقریباً دو ہزار سال تک جاری رہی۔ اگرچہ اسے "دیوار” کہا جاتا ہے، لیکن یہ کئی جگہوں پر دو متوازی دیواروں پر مشتمل ہے، جن کے درمیان چوکیاں اور فوجی بیرکیں بھی موجود ہیں۔ تاہم، اس دیوار کا ایک منفی پہلو یہ تھا کہ یہ اصل میں حملوں کو روکنے میں زیادہ مؤثر ثابت نہ ہو سکی۔ مورخین کے مطابق یہ زیادہ تر "سیاسی پروپیگنڈے” کے طور پر استعمال کی جاتی رہی۔
چچن اِتزہ (میکسیکو)
چچن اِتزہ مایا تہذیب کا ایک قدیم شہر ہے، جو میکسیکو کے یوکاتان جزیرہ نما میں واقع ہے۔ یہ شہر9ویں اور 10ویں صدی عیسوی میں اپنے عروج پر تھا، اس وقت کے دوران اِتزہ قبیلے نے، جو ٹولٹیک ثقافت سے متاثر تھے، کئی شاندار یادگاریں اور عبادت گاہیں تعمیر کیں۔
سب سے مشہور عمارت "ایل کاسٹیلو” (قلعہ) نامی ایک زینہ دار ہرم ہے، جو 79 فٹ (24 میٹر) بلند ہے۔ اس کے 365 زینے سال کے دنوں کی تعداد کی نمائندگی کرتے ہیں، جو مایا قوم کی فلکیاتی مہارت کا ثبوت ہے۔
اس کی خاص بات یہ ہے کہ بہار اور خزاں کے مساواتی دنوں میں غروبِ آفتاب کے وقت ہرم پر پڑنے والے سائے سانپ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، جو زینوں سے نیچے رینگتا دکھائی دیتا ہے۔
پیٹرا (اردن)
پیٹرا، اردن کا ایک قدیم شہر ہے جو ریتیلے پہاڑوں اور چٹانوں کے درمیان ایک وادی میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے یہاں ایک چٹان پر ضرب لگائی تھی اور اس سے پانی نکل آیا تھا۔ بعد میں عرب قبیلہ نبطیوں نے اسے اپنا دارالحکومت بنایا اور اسے ایک اہم تجارتی مرکز میں تبدیل کر دیا۔
نبطی قبیلے کے لوگ سنگ تراش ماہر کاریگر تھے، انہوں نے چٹانوں میں مکانات، معبد اور مقبرے تراشے، جو سورج کی روشنی کے ساتھ رنگ بدلتے تھے۔
انہوں نے ایک شاندار آبی نظام بھی بنایا، جس کی بدولت شہر میں باغات اور کھیت آباد کیے گئے۔ اپنے عروج کے دور میں پیٹرا کی آبادی تقریباً 30ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ تاہم تجارتی راستوں میں تبدیلی، 363 عیسوی کے زلزلے، اور 551 عیسوی میں ایک اور زلزلے کے بعد یہ شہر آہستہ آہستہ ویران ہوتا گیا۔
اگرچہ 1912 میں اسے دوبارہ دریافت کیا گیا لیکن 20ویں صدی کے آخر تک ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی اور آج بھی اس کے بارے میں بہت سے راز افشا ہونا باقی ہیں۔
ماچو پیچو (پیرو)
ماچو پیچو، پیرو کے شہر کُسکو کے قریب ایک انکائی مقام ہے، جسے 1911 میں ہائرم بینگھم نے دریافت کیا۔ بینگھم کا ماننا تھا کہ یہ ولکابامبا ہے، جہاں ’انکا‘ نامی قوم نے ہسپانوی حملہ آوروں کے خلاف 16ویں صدی میں مزاحمت کی تھی لیکن بعد میں یہ نظریہ غلط ثابت ہوا۔
ماچو پیچو کے اصل مقصد پر اب بھی بحث جاری ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہ مقام ان خواتین کی رہائش گاہ تھا جو سورج کی نذر و نیاز کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھیں جبکہ دیگر مؤرخین اسے زیارتی مقام یا شاہی تفریح گاہ قرار دیتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مجسمہ (برازیل)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مجسمہ جو ریو ڈی جنیرو، برازیل میں کور کوواڈو پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے، دنیا کا سب سے بڑا آرٹ ڈیکو مجسمہ کہلاتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد کچھ برازیلیوں کو خدشہ تھا کہ ملک میں بے دینی بڑھ رہی ہے، چنانچہ اس مجسمے کی تعمیر کی تجویز دی گئی۔
اس کا ڈیزائن ہیٹور دا سلوا کوسٹا، کارلوس اوزوالڈ، اور پول لینڈوسکی نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام 1926میں شروع ہوا اور 1931 میں مکمل ہوا۔ 98 فٹ (30 میٹر) بلند اس مجسمے کے بازو 92 فٹ (28 میٹر) پھیلے ہوئے ہیں۔
یہ مجسمہ مضبوط کنکریٹ سے بنا ہوا ہے اور اس پر تقریباً 60 لاکھ ٹائلیں جڑی ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے اسے اکثر آسمانی بجلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور 2014 میں ایک طوفان کے دوران مجسمے کے دائیں انگوٹھے کا ایک حصہ ٹوٹ گیا تھا۔
کولوزیم (اٹلی)
کولوزیم ایک یادگاری عمارت ہے جو روم میں واقع ہے، اسے پہلی صدی عیسوی میں شہنشاہ ویسپاسیان کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ایک شاندار تعمیراتی کارنامہ ہے، جس کا رقبہ 620 بائی 513 فٹ (189 بائی 156 میٹر) ہے اور اس میں ایک پیچیدہ اور حیران کردینے والی چھتوں کا نظام موجود ہے۔
یہاں 50ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، جو مختلف تفریحات کا مشاہدہ کرتے تھے، جن میں سب سے مشہور گلادییٹر مقابلے تھے۔
اس کے علاوہ کبھی کبھار یہاں پانی بھروا کر فرضی سمندری جنگوں کا انعقاد بھی کیا جاتا تھا۔ اندازوں کے مطابق تقریباً 5لاکھ افراد کولوزیم میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
تاج محل (بھارت)
بھارت کے شہر آگرہ میں واقع تاج محل دنیا کی سب سے مشہور اور حسین عمارتوں میں سے ایک ہے اور مغل فنِ تعمیر کا عظیم شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ یہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا جو 1631 میں اپنے 14ویں بچے کی پیدائش کے دوران وفات پا گئی تھیں۔
اس یادگار کی تعمیر میں 22 سال کا طویل عرصہ لگا اور 20ہزار مزدوروں نے خدمات انجام دیں۔ تاج محل کی عمارت سفید سنگِ مرمر سے بنی ہوئی ہے، جس میں قیمتی پتھروں سے مزین خوبصورت نقوش بنائے گئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں اپنی قبر کے لیے ایک سیاہ سنگِ مرمر کا مقبرہ بنوانا چاہتے تھے لیکن ان کے بیٹے نے انہیں معزول کردیا اور یہ منصوبہ نامکمل رہ گیا تھا۔