جگر انسان کے اعضائے رئیسہ میں شمار ہوتا ہے یعنی جس کی فعالیت پر صحت مند زندگی کا دارومدار ہوتا ہے اگر یہ درست کام نہ کرے تو انسان کئی سنگین جان لیوا بیماریوں کا شکار بن جاتا ہے۔
جگر کا سب سے اہم کام صفرا (Bile) بنانا ہے۔ صفرا سبزی مائل پیلے رنگ کی رطوبت ہوتی ہے جو جگر کے خلیات یومیہ تقریباً ایک لیٹر پیدا کرتے ہیں۔ یہ جسمانی خون کو صاف اور غیر ضروری چربی کو زائل بھی کرتا ہے جس سے انسانی جسم صحت مند رہتاہے۔
جگر کے امراض میں سب سے خطرناک بیماری اس کا سخت ہونا کا سکڑ جانا ہے جس کو طبی اصطلاح میں سیروسس آف لیور کہتے ہیں۔ یہ مرض بہت آہستہ آہستہ پیدا ہوتا ہے لیکن جب تک اسکی تشخیص ہوتی ہے تو یہ مرض آخری اسٹیج پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔
جگر کی سختی یا سُکڑنے کے اسباب:
جگر میں نکلنے والی صفرا کی نالی میں اگر کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہوجائے تو صفرا جگر میں جمع ہوتا رہتاہے، اگر یہ کیفیت لمبے عرصے کے لیے ہو جائے تو جگر میں سختی پیدا ہو جاتی ہے۔
بعض اوقات ہیپاٹائٹس بی اور سی کے وائرس کے انفیکشن بھی جگر میں سختی کا سبب بن سکتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ انفیکشن کی صورت میں سختی اسی وقت پیدا ہو بلکہ یہ اکثر مہینوں اور سالوں کے بعد ہی پیدا ہوتی ہے۔
ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ کچھ خاص قسم کی اینٹی باڈیز خون میں موجود ہوتی ہیں جنکی وجہ سے جگر میں سختی پیدا ہو سکتی ہے۔
شراب نوشی جگر کے لیے زہر قاتل ہے جب کہ کئی ادویات بھی ایسی ہیں جن کے مسلسل استعمال سے جگر سُکڑ سکتا ہے۔
مسلسل مرغن غذاؤں کے استعمال سے جگر میں چکنائی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ جو جگر میں سوزش کا باعث بن سکتی ہے اور سوزش کی مسلسل کیفیت جگر کی سختی میں مبتلا کرسکتی ہے۔
دل کی کچھ ایسی پرانی بیماریاں جو کافی سالوں سے لاحق ہوں وہ جگر کی سختی یا سکڑنے کا باعث بن سکتی ہیں۔
ولسن ڈیزیز میں دماغ اور جگر میں کاپر زیادہ جمع ہو جاتا ہے جو جگر کی سختی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہیموکرومیٹوسس نامی ایک بیماری جگر میں آئرن جمع ہونا کا باعث بنتی ہے اور اس کی وجہ سے بھی جگر سکڑ سکتا ہے۔
جگر سکڑنے یا سخت ہونے کی علامات:
جگر کی سختی یا سُکڑنے کی علامت دو طرح کی ہوتی ہے ایک عمومی اور دوسری خصوصی علامات۔
عمومی علامات:
وزن بہت کم جب کہ مریض سست اور لاغر ہو جاتا ہے۔ اس کو اکثر بخار اور جگر کے مقام پر درد ہوتا رہتا ہے۔
ایسے مریض کی بھوک ختم ہوجاتی ہے اور تھوڑی سا کام کرکے تھک جاتا ہے۔
پہلے جگر سائز میں بڑا ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ سُکڑنے لگتا ہے۔
ایسے مریضوں کی تلی بھی بڑھ جاتی ہے۔
خصوصی علامات:
ایسے مریضوں کا ہاضمہ بہت زیادہ خراب رہتا ہے اور انہیں اکثر قبض اور کبھی کبھی بہت زیادہ گیس کی شکایت ہونے لگتی ہے۔
پیٹ میں پانی جمع ہونا، جگرکی وریدوں میں بلند فشار خون ہونا، غذائی نالی کی وریدوں کا موٹا اور خون کی قے ہونا اس کے علاوہ پیٹ میں پانی بھرنے کی وجہ سے پیٹ پر نیلی نیلی رگیں ابھر آتی ہیں۔
ایسے مریضوں کی جلد خشک اور جسم کا رنگ زردی مائل ہونے لگتا ہے۔ پاؤں میں سوجن آ جاتی ہے اور جلد پر اکثر خارش ہوتی ہے۔
اس موذی مرض میں مبتلا مرد مریضوں کی مردانہ صلاحیتوں میں کمی جب کہ خواتین کو ماہواری کی بندش جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اکثر مریضوں میں خونی بواسیر اور یرقان کی علامات بھی پائی جاتی ہیں۔
احتیاطی تدابیر:
ایسے مریضوں کو درج ذیل ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔
سب سے پہلے اپنی خوراک کو ترتیب دیں۔ مرچ مصالحے، مرغن غذاؤں اور گوشت کا استعمال بالکل ترک، انڈے اور مچھلی سے پرہیز کریں جب کہ نمک کا استعمال کم سے کم کر دیں۔
کھانے میں سبزیوں، دوسری غذاؤں، تازہ پھل اور ان کا جوس استعمال کریں اور تمام نشہ آور اشیا سے مکمل پرہیز کریں۔
ہمیشہ صاف اور جراثیم سے پاک پانی کا استعمال کریں۔
متاثرہ افراد مکمل آرام کے ساتھ کھلے اور ہوادار کمرے میں ٹینشن اور ڈپریشن سے بالکل دور رہیں۔
ایسے مریضوں کو اگر کبھی کبھار خون چڑھانے کی ضرورت پیش آئے تو ہمیشہ محفوظ اسکرین شدہ خون ہی لگوائیں۔
متاثرہ افراد ایسی دوائیں جو جگر پر منفی اثرات مرتب کرتی ہوں ان سے دور رہیں اور انہیں ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر لینے سے گریز ہی کریں۔
ہمیشہ اپنے ڈاکٹر سے رابطے میں رہیں اور ان کی دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔