تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

کووڈ 19 کا مریض کب تک بیمار رہ سکتا ہے؟

لندن: برطانوی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کووڈ 19 کا شکار افراد کو اس کی علامات کا 6 ماہ تک سامنا ہوسکتا ہے، لانگ کووڈ کی متعدد علامات کا آغاز بیماری کے ایک ماہ بعد ہوتا ہے۔

بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ لانگ کووڈ کے شکار بیشتر افراد کو کووڈ کی علامات کا سامنا 6 ماہ بعد بھی ہورہا ہے اور ان کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔

لندن کالج یونیورسٹی کی تحقیق میں 56 ممالک کے 3 ہزار 762 افراد کو ایک سروے کا حصہ بنایا گیا تھا جو جون سے قبل کووڈ 19 کا شکار ہوئے تھے اور ان میں بیماری 28 دن سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی تھی۔

تحقیق کے ابتدائی نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تحقیق میں شامل 93 فیصد افراد بیماری کے 6 سے 7 ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کر رہے تھے۔

اس سروے میں شامل افراد سے پوچھا گیا کہ انہیں 205 میں سے کسی علامت کا سامنا تو نہیں۔

تحقیق میں 40 فیصد سے زائد افراد نے دماغی دھند اور مسلز میں تکلیف جیسی علامات کی شکایت کی، جس میں کوئی بہتری اتنے عرصے میں نہیں آئی، محققین کے مطابق لانگ کووڈ کی متعدد علامات کا آغاز بیماری کے ایک ماہ بعد ہوتا ہے۔

رواں ماہ ہی برطانیہ کے محکمہ شماریات نے لانگ کووڈ کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے شکار ہر 10 میں سے ایک فرد کو اس بیماری کی علامات کا سامنا 12 ہفتے یا اس سے بھی زائد عرصے تک ہوتا ہے۔

اس مقصد کے لیے برطانیہ کے لاکھوں افراد کے انفیکشن سروے کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ نومبر 2020 کے آخری ہفتے کے دوران ملک میں ایک لاکھ 86 ہزار افراد کو لانگ کووڈ کی علامات کا سامنا تھا، جن کا دورانیہ 5 سے 12 ہفتے کے درمیان تھا۔

سب سے عام علامت تھکاوٹ تھی جس کے بعد کھانسی، سر درد، سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی، گلے کی سوجن، بخار، سانس لینے میں مشکلات، متلی، ہیضہ اور پیٹ درد نمایاں تھے۔

اس رپورٹ کے حوالے سے ایکسٹر میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر ڈیوڈ اسٹرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی ڈیٹا تشویشناک ہے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ اس ڈیٹا سے ہمیں پپچیدگیوں کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں، مثال کے طور پر کووڈ 19 کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک، فاللج یا ہارٹ فیلیئر کا خطرہ کسی اور بیماری کے باعث اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ ہوتا ہے، جبکہ ذیابیطس یا گردے کے امراض میں مبتلا ہونے کا امکان بالترتیب 9 اور 10 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ یہ وائرس نظام تنفس کی کوئی عام بیماری نہیں بلکہ یہ ملٹی سسٹم مرض ہے۔

Comments

- Advertisement -