برطانوی شاعر لارڈ بائرن کو رومانوی عہد کا سب سے بڑا تخلیق کار کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے زمانے کا مقبول شاعر بھی تھا اور اپنی بعض عادات اور نظریات کی وجہ سے ناپسندیدہ اور بدنام بھی رہا۔
میتھیو آرنلڈ نے بائرن کے بارے میں کہا تھا: ’’لارڈ بائرن لکھنے پر مجبور ہے اور ہم اسے پڑھنے پر مجبور ہیں۔‘‘
22 جنوری 1788ء کو بائرن نے لندن میں جیک بائرن کے گھر میں آنکھ کھولی۔ تعجب کی بات ہے، مگر بائرن جس خاندان کا فرد تھا، وہ لوگ خبطی اور دوسروں کی نظر میں ناپسندیدہ تھے۔ اس کا باپ پاگل جیک مشہور تھا جب کہ دادا جو بحریہ میں بڑا افسر تھا، وہ بھی عجیب آدمی تھا۔ بقول اس کی نوکرانی کے وہ کثرتِ مے نوشی کے بعد فرش پر لیٹ جاتا اور مخصوص آواز نکال کر حشرات کو اپنے جسم پر رینگنے کی دعوت دیتا۔ مکڑیاں، چوہے اور چھپکلیاں اس کے قریب آجاتے اور جب وہ تھک جاتا تو انھیں بھگا دیتا تھا۔ یہی نہیں بائرن کی ماں بھی جھگڑالو اور بدزبان عورت تھی۔
بائرن کا ایک پاؤں پیدائشی طور پر ٹیڑھا تھا اور وہ کچھ لنگڑا کر چلتا تھا۔ وہ کم عمری میں اپنے باپ کی شفقت سے بھی محروم ہو گیا تھا۔ بائرن کی ماں اسے ایک اناڑی ڈاکٹر کے پاس لے گئی جس نے اس کی تکلیف بڑھا دی اور ساری زندگی وہ لنگڑا کر چلتا رہا۔
بائرن کا دادا نہایت امیر تھا اور اس کی دولت پوتے کے ہاتھ لگی تو اس نے عیاشیوں پر اڑا دی۔ بائرن کو لارڈ کا خطاب ملا اور وہ پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا، جہاں اس نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ پورا لندن اس کا مخالف ہو گیا۔ اس نے دو تقریریں کیں، جن میں خطابت کے جوہر تو دکھائے، لیکن لندن کے باسیوں اور ان کے طرزِ زندگی پر کڑی تنقید بھی کر ڈالی۔ اس نے اشرافیہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کی دوسری تقریر مزدوروں کے حق میں تھی۔ وہ صنعتی انقلاب کا بڑا مخالف ثابت ہوا اور مشینوں کو بے روزگاری کا سبب بتایا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہر مشین 50 مزدوروں کو گھر بٹھا دیتی ہے۔
اس کی دوسری تقریر نے برطانیہ کے مذہبی طبقے کو مشتعل کر دیا تھا۔ لارڈ بائرن نے مذہب کو ریاست کا حصّہ بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر مذہب کو آزادی ملنا چاہیے اور لوگوں کو اپنی مرضی سے اپنی رسومات کی ادائیگی کا حق دینا چاہیے۔ صرف ایک مذہب کو سرکاری مذہب کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔ بائرن کے ان نظریات نے ایک ہجوم کو اس کے خلاف اکٹھا کر دیا۔ وہ اپنی پُر زور مخالفت سے تنگ آگیا تو دنیا کی سیر کرنے کی غرض سے نکل پڑا۔ بعد میں لندن آیا تو اپنی تخلیقات کو کتابی شکل میں پیش کردیا۔
کہتے ہیں اس کی کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور وہ اتنی مقبول ہوئی کہ اسے انگریزی زبان کا بڑا شاعر قرار دے دیا گیا۔ اس کی نظمیں بے حد مقبول ہوئیں اور ان میں سے بعض اپنے وقت کی شاہ کار تخلیقات شمار کی جاتی ہیں۔
جب بائرن نے اپنے زمانے کے دو نام ور اور مقبول ترین تخلیق کاروں ورڈز ورتھ اور کولرج پر کو تنقید کی تو قارئین اس سے سخت ناراض ہوئے اور بائرن کی کتاب کی فروخت پر اس تنقید کا منفی اثر پڑا۔
لندن میں اپنی مخالفت اور لوگوں کی نفرت نے بائرن کو بیزار کردیا تو اس نے یورپ کا رخ کیا اور وہاں بھی اسے بہت پذیرائی ملی۔ بائرن ایسا شاعر تھا جس نے مختلف جانور بھی پالے۔ ان میں لومڑی، بندر، طوطا، بلّی، عقاب وغیرہ شامل ہیں جب کہ سب سے زیادہ محبت اسے اپنے کتّے سے تھی۔
1823ء میں یونانیوں اور ترکوں کے مابین جنگ شروع ہوئی اور ترک فوج نے لی پانٹو نامی قلعے پر قبضہ کر لیا تو بائرن نے بھی اس قبضے کے خلاف جنگ میں حصّہ لیا۔ وہ یونان کا حامی تھا۔ اس نے یونانی جرنیل کے ساتھ مل کر قلعے کا قبضہ حاصل کرنے کا ایک منصوبہ بنایا اور حملہ کردیا، جس میں بائرن زخمی ہو گیا۔ اس کا علاج شروع ہوا تو تیز بخار ہوگیا اور 19 اپریل 1824ء کو بائرن کی موت واقع ہوگئی۔
فوج میں وہ بہت مقبول تھا اور یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ اگر بائرن زندہ رہتا تو اسے یونان کا بادشاہ بنا دیا جاتا۔ بائرن کو لندن میں دفن کرنا تھا لیکن یونانی اس بات پر بضد تھے کہ اسے یونان میں دفنایا جائے چنانچہ بائرن کا دل وہیں دفن کردیا گیا۔ اس کا جسد خاکی لندن پہنچایا گیا، لیکن چوں کہ وہ مذہبی حلقوں میں ناپسند کیا جاتا تھا اور لندن کے پادری بھی اس کے سخت مخالف تھے، تو اسے دفن کرنا مشکل ہو گیا۔ دو دن کے بعد اسے سینٹ میری چرچ کے قبرستان میں دفنایا گیا۔