تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

کون ہیں وہ خوش قسمت لوگ جو کورونا کا شکار نہیں ہوئے؟

کورونا وائرس کے آنے بعد سے اب تک کروڑو افراد اس وبا کا شکار ہوچکے ہیں اور یہ وبا لاکھوں افراد کی جان بھی لے چکی ہے مگر دنیا میں ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہیں جو اس وبا سے مکمل محفوظ رہے۔

یہ لوگ کون ہیں اس بات کا اندازہ لگانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی بھی شعبے میں پی ایچ ڈی کرنا، اس طرح کے اعدا وشمار ترتیب دینا بھی بہت پیچیدہ عمل ہے۔

زیادہ تراقسام کے وائرس کا شکار لوگ وہ ہیں جن میں معتدل نوعیت کی علامات ہوتی ہیں، عام طور پر ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کرتے اور اس طرح وہ کسی گنتی میں ہی نہیں آتے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے اپنی تمام تر توجہ ان افراد پر مرکوز کردی ہے جو تاحال کورونا وائرس کے حملے سے محفوظ رہے ہیں تاکہ ان کی صحت اور قوت مدافعت کا مطالعہ کیا جاسکے۔

اس حوالے سے دوماہ کی حاملہ 40سالہ خاتون مشیل گرین کا کیس بھی سائنسدانوں کیلئے اچھنبا بنا ہوا ہے، جوایک ٹیکنالوجی کمپنی میں بحیثیت ڈسٹرکٹ پراجیکٹ مینیجر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

خاتون کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ نہ صرف ان کے شوہر کورونا وائرس کا شکار تھے بلکہ ان کے کچھ قریبی لوگ بھی اسی وبا سے متاثر تھے جس پر خاتون کو خدشہ تھا کہ وہ بھی اس کا شکار ہوجائیں گی۔

ان تمام ترحالات کے باوجود مشیل گرین کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا جو خود ان کیلئے انتہائی حیران کن تھا، مشیل گرین کو خدشہ تھا کہ وہ بھی وائرس میں مبتلا ہوکر بیمار ہوجائیں گی۔

ایک اور واقعے میں ایک 49 سالہ بیون سٹرک لینڈ ہے جو ایک نرس ہے، خاتون نے اپریل 2020 کے آغاز سے مسلسل چھ ہفتوں تک کوئنز کے ایک ہسپتال کے کورونا وارڈ میں رضاکا رانہ خدمات انجام دیں۔

اسٹرک لینڈ نے بتایا کہ ڈیوٹی کے دوران میں نے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ مجھے بھی کورونا ہوجائے گا مریضوں کا بہتر طریقے سے علاج کرنے کیلئے اکثر بغیر ماسک کے بھی کام کیا۔

اسٹرک لینڈ کا کہنا تھا کہ ان کا ہفتہ وار کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیا جاتا تھا، لیکن کبھی میرا ٹیسٹ مثبت نہیں آیا۔ جب میری ڈیوٹی ختم ہوئی تو میرا ایک اینٹی باڈی ٹیسٹ بھی لیا گیا جس میں پہلے سے انفیکشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

دنیا بھر کے سائنس دان اب اس بات کی تحقیقات کررہے ہیں کہ گرین اور اسٹرک جیسے کئی لوگ دو سال سے زیادہ عرصے تک شدت سے رہنے والے کورونا وائرس سے کس طرح بچنے میں کامیاب رہے؟،

ماہرین کو امید ہے کہ ان لوگوں کا مطالعہ کرنے سے جو اس انفیکشن سے بچ چکے ہیں کافی حد تک کامیابی ملے گی، شاید ایسے لوگ دوسروں کو متاثر ہونے سے روک سکتے ہیں یا وائرس سے متاثر ہونے والوں کا زیادہ مؤثر طریقے سے علاج میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -