منگل, جولائی 1, 2025
اشتہار

قدریں ابدی اور حقیقی ہیں جن کے بغیر شائستہ انسانی زندگی ممکن نہیں

اشتہار

حیرت انگیز

’’مفروش آنچہ نخرند۔‘‘ جس مال کے خریدار نہ ہوں اسے مت بیچو۔ معلوم نہیں شیخ فرید الدینؒ نے کس موقع پر کن لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا لیکن اس کا اشارہ قدروں کی ترجمانی اور منتقلی کی طرف تھا اور اس کے مخاطب وہ تمام لوگ تھے اور اس وقت ہیں جو اپنے علم اور عمل کے ذریعے قدروں کا احساس پیدا کر سکتے اور اسے تقویت پہنچا سکتے ہیں۔

کیا اچھا ہوتا اگر بحث شروع کرنے سے پہلے صاف صاف بتایا جا سکتا کہ ’’قدروں‘‘ سے کیا مراد ہے اور انہیں ایک سے دوسرا کیسے حاصل کر سکتا ہے، یعنی ترجمانی کا منصب کس طرح ادا کیا جاتا ہے۔

مشکل یہ ہے کہ جب کبھی کسی تصور کی واضح تعریف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یقینی باتوں کا بھی اعتبار نہیں رہتا۔ ہم زندہ ہیں پھر بھی نہیں بتا سکتے کہ زندگی کیا ہے، خوش اور مطمئن ہوں تب بھی یہ نہیں سمجھا سکتے کہ خوشی اور اطمینان کی ماہیت کیا ہے، ہم کا میابی کی آرزو کرتے ہیں مگر جب سوچتے ہیں کہ دراصل اس سے کیا حاصل ہوگا تو وہ ایک دھوکا معلوم ہوتی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ایمانداری، حیا، سچائی، سخاوت، شرافت کا کوئی تصور، کوئی معیار موجود نہ ہو یا اس پر عمل نہ کیا جاتا ہو تو انسانی زندگی ناقابل برداشت ہو جائے گی، اس لیے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اس کی کوشش کرتے ہیں کہ ایمانداری، سچائی وغیرہ کی ضرورت اور ان کی قدر کو محسوس کرتے اور کراتے رہیں۔ لیکن اس میں بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ کسی ایک قدر، مثلاً ایمانداری کو لے لیجیے اور ادھر ادھر نظر دوڑائیے تو اس کی ایک مثال کے مقابلے میں بے ایمانی کی دس مثالیں ملیں گی اور کامیابی کی عام طور پر مسلمہ علامتوں کے مطابق دیکھیے تو شاید آخر میں یہ نتیجہ نکلے گا کہ ایمانداری سے فائدہ پہنچنے کا لگ بھگ اتنا ہی امکان ہے جتنا کہ بے ایمانی سے نقصان پہنچنے کا۔

پھر ہر سماج میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمانداری کا کوئی فرضی معیار اس مصلحت سے قائم کر لیا جاتا ہے کہ بے ایمانی کے لیے ایک آڑ ہو جائے۔ چند ایماندار لوگ اس معیار کو صحیح اور قطعی مان کر دھوکا کھاتے ہیں اور جو اس معیار کو عملاً نہیں مانتے انہیں سچا فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ گویا معمولی روز مرہ کی ایمانداری کو قائم رکھنے کے لیے بھی ایک طرح کے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے اور اسی نسبت سے اعلٰی اخلاقی قدروں پر یقین رکھنے کے لیے ایمان بالغیب اور پختہ ہونا چاہیے۔

انسان کی محدود صلاحیتیں اسے اس پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ قدروں کو دینی، اخلاقی، سیاسی، سماجی، جمالیاتی قسموں میں تقسیم کرکے انہیں الگ الگ نام دے، لیکن دوسری طرف جو شخص بھی کسی قدر کی پوری خدمت کرنا چاہتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ قدر ایک بنیادی، ہمہ گیر قدر کا ایک پہلو، ایک سورج کی کرن ہے۔ ہمیں قدریں الگ الگ نظر آتی ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہم ان کی وحدت کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اور ترجمانی کا منصب اس طرح ادا ہوتا ہے کہ انسان محسوس یا غیر محسوس طریقے پر کسی قدر کو اپنی شخصیت اور اپنے عمل میں نمایاں کرتا ہے اور یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ اس خاص شکل میں یہ قید قابلِ قبول ہے یا نہیں۔

قدروں کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ ان کی ترجمانی کی جاتی ہے تو بحث اس پر ہوتی ہے کہ ترجمانی صحیح ہے یا غلط، لیکن معاملہ دراصل قدروں کی اعلی اور ادنیٰ شکلوں کی کشمکش کا ہوتا ہے۔ کسی جماعت کا عام میلان اس طرف ہو کہ وہ قدروں کی ادنی شکلوں پر مطمئن ہے تو اعلیٰ شکلیں نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں، اسی وجہ سے ان لوگوں کو، جو اعلیٰ شکلوں کی ترجمانی کرنا چاہتے ہیں، یہ سوچنا پڑتا ہے کہ میدان میں آئیں یا نہ آئیں اور آئیں تو کیا لے کر۔

’’مفروش آنچہ نخرند۔‘‘ ……..کیا ترجمانی کا منصب مال بیچنے اور خریدنے سے کوئی سے نسبت رکھتا ہے؟ اصولی بحث کرنے والے کہیں گے کہ ہرگز نہیں رکھتا۔ حکم کی تعمیل فرض ہے اور ایسی بات کہنا ہرگز مناسب نہیں ہے جس سے ایک طرف یہ خیال پیدا ہو کہ حکم سے آگاہ کرنے والا حکم کی تعمیل کرنے والے کا اتنا ہی پابند ہے جتنا کہ تاجر خریدار کی مرضی کا، اور دوسری طرف حکم کی تعمیل کرنے والا یہ سمجھ بیٹھے کہ اسے اختیار ہے کہ جس حکم کی تعمیل کرنا چاہے کرے، جس کی نہ کرنا چاہے نہ کرے۔ انسان کی فطری سرکشی کو دیکھتے ہوئے حکم دینے اور اس کی تعمیل کرانے کے سوا چارہ نہیں ہے۔

اصولی بات کہنے والوں کا یہ اعتراض ایک تو اس وجہ سے کمزور ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدریں بذات خود مقبول نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتی ہیں۔ اس لیے انہیں قانون کی شکل دینے اور جبر سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے اگر مان لیا جائے کہ انسان فطرتاً سرکش ہوتا ہے تو عام تجربے کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ جبر کرنے کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ سرکشی اور بھی بڑھ جائے، یا وہی قدریں جنہیں ذہن نشین کرنا حکم کا مقصد ہوتا ہے منافقت کے گرد و غبار میں گم ہو جائیں۔ اصولی بحث کرنے والے بھی مانتے ہیں کہ دینی اور اخلاقی حکم کی ظاہری اور رسمی تعمیل کافی نہیں ہے، اس کے ساتھ خلوص نیت بھی لازمی ہے۔ لیکن نیت کا سوال اٹھ جائے تو پھر حکم کے کچھ اور معنی ہو جاتے ہیں۔

دراصل ہر قدر جو تسلیم کی جاتی ہے حکم بن جاتی ہے اور اس کی خدمت ایک حکم کی تعمیل ہوتی ہے جو انسان اپنے کو دیتا ہے۔ قدروں کا وہ ترجمان جو کھرے اور کھوٹے کے درمیان تمیز کرنا قدر کی صحیح ترجمانی کے لیے لازمی سمجھتا ہے، یہ بھی دیکھتا ہے کہ لوگوں کو کسی قدر کا زبردستی حامل نہیں بنایا جا سکتا، اس لیے وہ حکم دینے کے طریقے کو پسند نہیں کرتا۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اصرار اور تکرار کے ساتھ نصیحت اور تنبیہ کرنا حکم دینے کی شکل ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی سے اپنی بے بسی کا اعتراف کر لیا جائے اور جو اختیار دوسروں کو بہرحال حاصل ہے اسے تسلیم کر لیا جائے۔

اسے تسلیم کر لینے کے بعد شیخ فرید الدینؒ کے مقولے پر پھر غور کیجیے۔ تاجر اور قدروں کا ترجمان دونوں صاحبِ مال ہوتے ہیں، دونوں کا کام ان کے سرمائے کے مطابق ہوتا ہے، دونوں کے لیے سرمائے کے ساتھ ہمت اور حوصلہ بھی ضروری ہے اور اس میں کمی ہو تو ان کا کاروبار خود بخود سمٹ جاتا ہے۔ بعض تاجر سرمائے کی فراوانی کے باوجود کسی ایک بستی یا بازار کو اپنی کل کائنات سمجھ لیتے ہیں اور مقرر مال مقرر گاہکوں کے ہاتھ بیچتے رہتے ہیں۔ بعض تاجر دنیا کی وسعت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، نیا مال دور دور سے لاتے ہیں اور خریدار تلاش کرنے میں کسی بازار اور بستی کی قید گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح قدروں کا کوئی ترجمان حق کی طلب کو چند لوگوں اور چند دینی اور اخلاقی امور تک محدود سمجھ سکتا ہے، اپنا منصب یہ سمجھ سکتا ہے کہ جو کچھ کتاب میں لکھا ہے وہ پڑھا دے، اس کا مطلب سمجھا دے اور نتیجے کو دیکھے کہ کیا ہوتا ہے۔

کوئی ترجمان یہ محسوس کر سکتا ہے کہ وہ خود قدروں کا خادم اور حامل ہے، یہ قدریں کسی خاص شکل کی پابند نہیں، ان کا اثر خاص لوگوں کی توفیق کا دست نگر نہیں ہے۔ وہ اپنے فکر اور عمل کو یہ جان کر آزاد کر سکتا ہے کہ اگر ایک طرف قصاص کی حد مقرر کی گئی ہے تو دوسری طرف عفو اور رحم کی بے شمار کیفیتیں ہیں۔ اگر ایک طرف حکم ہے تو دوسری طرف شوق ہے۔ ایک طرف صحو ہے تو دوسری طرف سکر ہے۔ قدروں کی ترجمانی کو کاروبار سے تشبیہ دینے میں سب سے اہم نکتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی مادّی ضرورتوں کی طرح اس کی اخلاقی ضرورتیں بھی قائم رہتی ہیں، مگر دونوں کو پورا کرنے کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔

آدمی کو تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا اور پیٹ بھرنے کے لیے کھانا ہمیشہ چاہیے مگر وہ ایک ہی طرح کا کپڑا اور ایک ہی طرح کا کھانا ہمیشہ پسند نہیں کرتا۔ اخلاقی قدروں کا ترجمان اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا کہ ایک ہی بات ایک ہی طریقے سے بیان ہوتی رہے تو اس میں اثر نہیں رہتا۔ دین اور اخلاق کے معلم جب لوگوں کو گمراہ اور جماعت کی حالت کو خراب کہنے لگیں تو اس کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ خود خاصی مدت تک ’’مفروش آنچہ نخرند‘‘ کی مصلحت سے غافل رہ چکے ہیں۔

قدریں ابدی اور حقیقی ہیں۔ یہ بھی مسلّم ہے کہ ان کے بغیر شائستہ انسانی زندگی ممکن نہیں۔ اگر کوئی جماعت اس وجہ سے نقصان اٹھائے کہ اس کے اندر خود اس کی اپنی قدریں مقبول نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قدروں کے ترجمان اپنے منصب کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ناکامی کے احساس اور اس سے بھی زیادہ ناکامی کے خوف نے انہیں اس طرف مائل کیا ہو کہ وہ خریدار کے سامنے وہی دینی اور اخلاقی مال پیش کریں جس کے بارے میں انہیں یقین ہوکہ وہ صدیوں تک برتا جا چکا ہے، اس لیے ہر خریدار سمجھے گا کہ وہ اس کے لیے کارآمد ہے، مگر خریدار اسے اس وجہ سے قبول نہ کرے کہ اس کی ضرورتیں بدل گئی ہیں۔

لیکن مقبولیت کا معیار کیا ہے؟ تجارت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور چھوٹے پیمانے پر بھی۔ کوئی تاجر گراں مال بیچتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اس کے خریدار کم ہوں گے اور جو سودا وہ کرتا ہے اس میں وہ اپنا منافع زیادہ رکھتا ہے، کوئی سستا مال کم منافع پر مگر بڑی تعداد میں بیچتا ہے، کوئی چھوٹی سی دوکان لگاتا ہے اور تھوڑے سے منافع کو کافی سمجھتا ہے۔ جہاں ہر قسم کے تاجر، طرح طرح کے مال اور مختلف ضرورتیں اور شوق رکھنے والے گاہک ہوں وہاں مقبولیت کے بارے میں رائے قائم کیسے کی جائے گی۔ مال کی خوبیاں دیکھی جائیں گی یا خریداروں کی تعداد، تاجر کی آمدنی کا حساب لگایا جائے گا یا خریدار کی تسلی کا اندازہ کیا جائےگا؟

تجارت میں نفع نقصان کا حساب لگانا آسان ہوتا ہے، اس لیے کہ آخر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ روپیہ آنہ پائی میں ملک کی دولت کتنی بڑھی۔ قدروں کی ترجمانی کرنے والے اپنی خاص قدروں کی مقبولیت کا اندازہ کیسے کریں؟ ان کی دنیا میں ادنیٰ بہر حال ادنیٰ ہے اور اعلٰی بہرحال اعلیٰ رہے گا، اور اعلی قدروں کے ترجمان ادنیٰ اور اعلیٰ کو جوڑ کر اوسط نکالنے کے طریقے کو گوارا نہیں کر سکتے۔ شیخ فرید الدینؒ نے تنگ گلیوں میں سستا اور ناقص مال بکتے دیکھا ہوگا، قدروں کے ایسے ترجمان دیکھے ہوں گے جن کے نزدیک اعلیٰ قدروں کو رد کر دینے کے لیے کافی تھا کہ وہ اپنے دروازے کے سامنے ایسے طلب گاروں کے ہجوم دکھا دیں جو صرف اپنے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے ادنیٰ قدروں کو کافی ٹھہراتے تھے۔

اگر صرف قدر کو دیکھا جائے اور اس بات کو نظر انداز کیا جائے کہ اسے قبول کرنے والے کتنے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اکثریت کے لیے کیا کیا جائے، اگر اکثریت کی مرضی اور صلاحیتوں کو دیکھا جائے تو پھر سوچنا پڑتا ہے کہ اعلیٰ قدروں کی خدمت اور ترجمانی کیسے کی جائے۔ ایمان اور انکار کی جنگ بے شک سخت ہوتی ہے، مگر وہ یکسوئی سے لڑی جا سکتی ہے۔ اعلیٰ اور ادنیٰ قدروں کے درمیان جنگ کی نوبت آجائے تو اعلیٰ کی شکست تقریباً یقینی ہوتی ہے اور اعلٰی قدروں کے نمائندے میدان میں نہ آئیں تو ادنیٰ قدروں کا سیلاب انہیں ڈبو دیتا ہے۔

ممکن ہے ’’مفروش آنچہ نخرند‘‘ سے شیخ فرید الدین ؒ کی مراد یہ ہو کہ طالب حق کو اپنا مال اپنے پاس رکھنا چاہیے، مقبولیت کے پھیر میں پڑ کر اعلیٰ قدروں کو رسوا نہ کرنا چاہیے۔ یہ قدریں ایسا سرمایہ نہیں ہیں جو ضائع ہو جائے، اس کا جمع ہونا اور محفوظ رہنا خود ایک امر عظیم ہے۔ جن لوگوں کو حق کی طلب ہوگی وہ صاحب معرفت کے پاس آپ ہی کھنچ کر آ جائیں گے اور اس آرزو میں تڑپتے ہوں گے کہ انہیں اعلیٰ قدروں کی خدمت کا اہل سمجھا جائے۔

جسے شیخ نظام الدین جیسا مرید مل گیا تھا، وہ انتہائی تنگدستی کی حالت میں بھی کہہ سکتا تھا کہ مجھ سے تمہیں جتنا ملنا تھا وہ مل گیا، اب جاؤ، ہندوستان پر قبضہ کرو۔ اور اسی مرید سے وہ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ جس مال کے خریدار نہ ہوں اسے مت بیچو۔ لیکن ہندوستانی مسلمان ان بزرگوں، ان کے خیالات اور ان کے طریقوں کو اپنی تاریخ کی اعلی قدریں مانیں اور اس لحاظ سے ان کی خدمت اور ترجمانی کرنا چاہیں تو انہیں کون سا مسلک اختیار کرنا چاہیے۔ ’’مفروش آنچہ نخرند‘‘ کا یا ’’ملک ہند بگیر‘‘ کا؟

ہمارے زمانے میں قدروں کی ترجمانی اور اعلیٰ اور ادنیٰ کے درمیان امتیاز کرنا تعلیم گاہوں کا خاص منصب ہے۔ جدید تعلیم گاہوں کا شروع سے یہ دستور رہا ہے کہ جس مال کے خریدار ہوں اسی کو پیدا کریں، مال کو پرکھنے کی کوشش نہ کریں۔ اب یہ دستور ایک اصول بن کر اتنا مسلؑم ہو گیا ہے کہ اس کے سوا تعلیمی قدروں کی اور کوئی کسوٹی نہیں رہ گئی ہے۔ لیکن کسوٹی نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پرکھنے کی کوئی ضرورت اور کوئی صورت نہیں ہے۔

ملک کے حالات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ لوگوں کی استعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ استعداد کی کمی کا صرف تعمیری کاموں پر نہیں بلکہ معمول کے کاموں پر بھی بہت برا اثر پڑ رہا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اخلاقی قدریں کمیاب ہوتی جا رہی ہیں جن پر ملکی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ اعلی قدروں کا ذکر سبھی کرتے ہیں، ان کی فکر کوئی نہیں کرتا، اس لیے کہ فکر کرنے والے کو کوئی پوچھتا نہیں۔ سب سے زیادہ مشکل میں وہ تعلیم گاہ ہوگی جو قدروں کا سودا نہ کرنا چاہے۔ جو یہ سمجھے کہ ’’ملک ہند بگیر‘‘ ایک ہمت آزما اور حوصلہ پر ور اخلاقی دعوت ہے اور اسے قبول نہ کرنا اعلیٰ قدروں کی خدمت اور ترجمانی سے انکار ہے۔
افراد کے مقابلے میں تعلیم گاہیں قدروں کی ترجمانی کرنے میں اس لحاظ سے کچھ فائدے میں ہوتی ہیں کہ وہ بھٹک جانے کے دو بڑے خطروں سے کسی حد تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ افراد قدروں کی ترجمانی کرتے وقت اعلی اور ادنی کے درمیان امتیاز کرتے ہیں، جن قدروں کی وہ ترجمانی کرنا چاہتے ہیں انہیں اعلیٰ قرار دے کر تسلیم کرانا چاہتے ہیں، اس وجہ سے لامحالہ ان کی مخالفت کی جاتی ہے اور مخالفت شدید ہو تو وہ توازن جو صحیح ترجمانی کے لیے لازمی ہے قائم نہیں رہتا۔ مخالفت کی شدت ایسی صورت بھی پیدا کر سکتی ہے کہ اسلام یا کسی اور مذہب کی قدروں کا ترجمان خود اپنے آپ کو ایک قدر تصور کرنے لگے، اور اپنی پیروی کو قدروں کی خدمت کے لیے لازمی قرار دے۔

تعلیم گاہوں کی شخصیت اجتماعی ہوتی ہے۔ قدروں کی ترجمانی کے لیے تصورات کی جس ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے اس کے ساتھ ان میں اختلاف رائے کی اتنی گنجائش بھی ہوتی ہے کہ ترجمانی کا منصب بالکل شخصی نہیں ہو جاتا۔ ہماری آج کل کی تعلیم گاہوں میں، اگرچہ وہ قومی پالیسی اور سیاسی پارٹیوں سے اثر لیتی ہیں، اتنی آزادی ہے کہ خیالات اور عقائد اعلانیہ مقبول اور مردود نہیں ٹھہرائے جاتے اور جو استاد اپنی اور دوسروں کی خود داری کا لحاظ رکھے، وہ آزادی کے ساتھ دینی اخلاقی اور سماجی قدروں کی ترجمانی کر سکتا ہے۔

تعلیم گاہیں چاہیں تو قدروں سے کوئی سروکار نہ رکھیں اور صرف کتابیں پڑھا دینا اور امتحان لے کر سندیں دے دینا اپنا کام سمجھیں۔ بظاہر ہماری بیشتر تعلیم گاہیں یہی کر رہی ہیں۔ لیکن قدروں سے منھ پھیر لیا جائے تو وہ سب مٹ نہیں جاتی ہیں۔ صرف یہ ہوتا ہے کہ ادنیٰ قدریں حاوی ہو جاتی ہیں۔

اب ہم یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کو دینی اور اخلاقی تعلیم سے محروم رکھنا غلط ہے، اور ایسے نصاب کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جس میں تمام مذہبوں کا نچوڑ ہو۔ یہ نچوڑ ایک نیا نسخہ ہوگا جس میں سب مفید دوائیں ہوں گی، مگر اس سے نہ کوئی بیماری دور ہو گی نہ تندرستی قائم رکھی جاسکے گی، صرف اس وجہ سے کہ اس میں کسی کے مزاج کا خیال نہ رکھا گیا ہو گا۔ ہمارے یہاں ایسی تعلیم گاہیں بھی ہیں جو اپنے منصب کو کسی خاص ملت یا دینی جماعت کی دینی اور اخلاقی تعلیم تک محدود رکھتی ہیں، ان کا نصاب شروع سے آخر تک اسی پر مشتمل ہوتا ہے، اس نصاب کے ساتھ چند جدید دنیاوی علوم بھی پڑھا دیے جاتے ہیں، جن کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو ہندوستانیوں کے مجمع میں دوچار یوروپی لوگوں کی۔ ایسی تعلیم گاہیں دینی اعتبار سے بہت ممتاز ہو سکتی ہیں لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ اپنے میدان عمل کو مخصوص اور محدود کرنے کے بعد وہ قدروں کی ترجمانی کا حق پورا پورا ادا کرسکتی ہیں یا نہیں۔

(محمد مجیب بھارتی اسکالر اور ماہر تعلیم تھے جنھوں نے افسانہ نگاری کے ساتھ علمی اور ادبی موضوعات پر بھی کئی مضامین تحریر کیے اور ترجمان کا منصب کے عنوان سے یہ طویل مضمون بھی انہی کا ہے جو ان کے غور و فکر کا نتیجہ ہے)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں