منگل, فروری 4, 2025
اشتہار

مدارس رجسٹریشن بل کو دوبارہ پارلیمنٹ نہیں لایا جا سکتا، رویہ بدلیں ورنہ فیصلے میدان میں ہوں گے، فضل الرحمان

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مدارس رجسٹریشن بل کو دوبارہ پارلیمنٹ نہیں لایا جا سکتا، رویہ بدلیں ورنہ فیصلے میدان میں ہوں گے۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بل پر ایک بار اعتراض کے بعد صدر کو دوبارہ ایوان کو بھیجنے کا حق نہیں، آئین کہتا ہے صدر کسی بل پر دس دن تک دستخط نہیں کرتے تو وہ ایکٹ بن جائے گا، اس لیے آئین کے مطابق مدارس سے متعلق بل ایکٹ بن چکا ہے۔

انھوں نے کہا مدارس کی آزادی کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ملک میں شدید ناراضی پائی جاتی ہے کوشش کر رہے ہیں تلخی کی طرف نہ جائیں، حالات بگاڑ کی طرف نہ لے جائیں، رویہ تبدیل نہ ہوا تو فیصلے ایوان نہیں میدان میں ہوں گے، آپ 100 سال تک مدارس کی رجسٹریشن نہ کریں، مدارس تو چلیں گے، آپ رجسٹریشن نہیں دیں گے تو کیا مدارس بند ہو جائیں گے۔

مولانا نے کہا اس ایوان کی نمائندگی پر ہمیں تحفظات ضرور ہیں لیکن آئینی ذمہ داریاں بھی یہ ایوان نبھا رہا ہے، اس سے قبل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے چھبیسویں آئینی ترمیم پاس کی، یوں سمجھیں کہ وہ اتفاق رائے کے ساتھ تھا، لیکن ایک بڑی پارٹی نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔

انھوں نے کہا 2004 میں مدارس کے حوالے سوالات اٹھائے گئے، ان سوالات پر مذاکرات ہونے کے بعد قانون سازی ہوئی، کہا گیا کہ دینی مدارس محتاط رہیں گے کہ شدت پسندانہ مواد پیش نہ کیا جائے۔ خفیہ ایجنسیاں مدارس میں براہ راست جاتی تھیں۔ اس کے بعد 2010 میں دوبارہ معاہدہ ہوا، ہمارے نزدیک تو معاملات طے تھے لیکن اس کے بعد اٹھارویں ترمیم پاس ہوئی، اور حکومت نے کہا کہ مدارس سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔

فضل الرحمان نے کہا پھر وزرات تعلیم کی بات آئی اور بات چیت ہوتی رہی، وہ ایکٹ نہیں بنا لیکن محض معاہدہ تھا، پہلی بات تھی کہ نئے مدارس کی رجسٹریشن پر حکومت تعاون کرے گی، دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھولنے کی بات بھی ہوئی، غیر ملکی طلبہ کو 9 سال کا ویزا دینے کی بات ہوئی، جوں ہی بل پاس ہوا، تو اعجاز جاکھرانی صاحب نے ایوان صدر آنے کی دعوت دی، لیکن نہ مدارس کے اکاؤنٹس کھل سکے نہ ویزے لگ سکے، اس کے بعد بیس پچیس بورڈز بنائے گئے۔

انھوں نے کہا الیکشن سے پہلے وزیر اعظم سے بات کی، 26 ویں آئین میں جو بل پاس ہوا اس میں وزارت تعلیم کا کوئی تذکرہ نہیں تھا، ہم نے قبول کیا اور بل پاس ہوا، آدھے گھنٹے بعد انھوں نے کہا کہ پروگرام ملتوی کر دیا گیا ہے، صدر مملکت نے اعتراض کیا تو اسپیکر نے تصحیح کر دی۔ اسپیکر نے آرٹیکل 75 کا تذکرہ کیا، جانب صدر نے دوبارہ کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا۔ صدر مملکت کو ایک بار اعتراض کا حق حاصل ہے لیکن دوسری دفعہ نہیں۔

مولانا نے کہا کہ صدر عارف علوی نے ایک بل پر دستخط نہیں کیا تو بل ایکٹ بن گیا، یہ ایک نظیر بن چکی ہے، اب صدر کو اختیار حاصل نہیں ہے، اگر صدر دس دن کے اندر دستخط نہیں کرتے تو قانون بن جاتا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی نے انٹرویو میں کہا کہ قانون کے مطابق یہ ایکٹ بن چکا ہے، سوال یہ ہے کہ قانون بن چکا ہے تو گزٹ نوٹیفیکیشن کیوں جاری نہیں کیا جا رہا۔

انھوں نے مزید کہا دوبارہ مشترکہ اجلاس بلایا گیا تو یہ آئینی خلاف ورزی ہوگی، ہم ایوان اور آئین کے استحقاق کی جنگ لڑ رہے ہیں، ایوان صدر سے شکایت ہے کہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، وزیر قانون کوئی تاویل نکال لیتے ہیں لیکن تاویلیں نہیں چلیں گی، قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ صدر مملکت نے مشترکہ اجلاس بلانے کا نہیں کہا، مدارس رجسٹریشن بل کو دوبارہ پارلیمنٹ نہیں لایا جا سکتا، اسپیکر نے بل پر صدر کا اعتراض دور کر دیا تھا۔

اہم ترین

مزید خبریں