عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی نے جہاں کئی خطرات کو جنم دیا ہے، وہیں ایک بہت بڑا خدشہ ساحلی علاقوں کو بھی لاحق ہے۔ تحقیق کے مطابق عالمی حدت بڑھنے کی وجہ سے سنہ 2040 تک سمندر کی سطح میں 2 فٹ کا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو دنیا کے کئی ساحلی شہر زیرِ آب آجائیں گے۔
بظاہر تو 2 فٹ کا اضافہ بہت زیادہ نہیں لگتا، لیکن در حقیقت اس کے اثرات بہت گمبھیر ہوں گے۔ مثلاً امریکی ریاست فلوریڈا کے جنوبی علاقوں کی میٹھے پانی کے ذخائر تک رسائی ختم ہو جائے گی، نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور ایک بہت بڑا علاقہ مستقل سیلابی پانی کی زد میں ہوگا۔
اس کے علاوہ میامی کے مشہور ساحل اور کئی جزائر کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ چین، بھارت، مصر، بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں جہاں بہت بڑے دریائی ڈیلٹا موجود ہیں، وہاں سطح سمندر میں محض دو یا تین فٹ کے اضافے کا نتیجہ کروڑوں افراد کی نقل مکانی اور بہت بڑے پیمانے پر زرعی زمین کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔
یعنی مستقبل بہت بھیانک ہو سکتا ہے لیکن دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جو اس صورتحال کا نہ صرف سامنا کر چکا ہے بلکہ حیرت انگیز طور پر اب تک خود کو محفوظ بھی کر رکھا ہے، یہ ہے شمالی یورپ کا ملک نیدرلینڈز، جسے ہم ہالینڈ بھی کہتے ہیں۔
جنوری 1953 میں بحیرہ شمال میں مد و جزر کی وجہ سے خطرناک لہروں نے نیدر لینڈز کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی تھی۔ تقریباً 2 ہزار افراد کی جانیں گئیں لیکن اس واقعے کے تقریباً 54 سال بعد جب ایک مرتبہ پھر یہی صورتحال پیدا ہوئی تو نیدر لینڈز پہلے سے تیار تھا۔
نومبر 2007 میں ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں جیسے ہی سطحِ سمندر میں اضافہ ہوا، جدید کمپیوٹر سنسرز کی قبل از وقت اطلاعات مل گئی اور ہنگامی اقدامات شروع کر دیے گئے۔ صرف 30 منٹ میں 240 میٹرز کے دو بہت بڑے آہنی دروازے آپس میں مل گئے اور یوں اس آبی راستے کو طوفانی لہروں سے بچا لیا گیا جس سے نیدر لینڈز کے اندرونی علاقوں میں سیلاب آنے کی توقع تھی۔ صبح تک طوفان ختم ہو چکا تھا اور اس غیر معمولی طوفان سے بہت معمولی سا سیلاب آیا۔
یہ سب ایک عظیم بند کی وجہ سے ممکن ہوا جو 680 ٹن کے بال جوائنٹ کی مدد سے حرکت کرتا ہے اور لہروں کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے۔ یہ اس بند کا پہلا عملی تجربہ تھا جس میں وہ بھرپور کامیاب بھی ہوا۔
یہ انسان کا تیار کردہ دنیا کا سب سے بڑا حرکت پذیر ڈھانچا ہے اور بلاشبہ انجینیئرنگ کا ایک شاہکار بھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1998 میں مکمل ہونے والا بند سیلابی پانی پر قابو پانے کے لیے ایک عظیم انٹرلاکنگ سسٹم کا محض ایک حصہ ہے۔ اس پورے نظام کو ڈیلٹا ورکس کہا جاتا ہے جو دنیا بھر میں سیلاب سے بچنے کا سب سے پیچیدہ نظام ہے۔
دراصل نیدر لینڈز یورپ کے تین بڑے دریاؤں رائن، شیلٹ اور میوز کے ڈیلٹا پر واقع ہے اور ملک کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ سطحِ سمندر سے نیچے واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سطح سمندر میں معمولی سے اضافے سے بھی یہاں سیلاب کا خدشہ کھڑا ہو جاتا ہے۔
سنہ 1953 میں جب سمندری طوفان اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی لہروں نے ملک کے بڑے علاقے میں تباہی مچائی تو حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے باضابطہ اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ڈیلٹا کمیشن تشکیل دیا، جس کا ہدف تھا کہ ملک کے جنوب مغربی علاقے کو تحفظ دینا۔
اس کمیشن کی توجہ گنجان آباد شہروں میں سیلاب کے خدشات کو 10 ہزار میں سے 1 تک لانا تھا، یعنی ایک اوسط ساحلی شہر کے مقابلے میں بھی 100 گنا محفوظ بنانا۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جنوب مغربی ساحلوں کے ساتھ بڑے انفرا اسٹرکچر کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے پہلی دفاعی لائن سمندری کھاڑیوں پر بند باندھنا تھی، جو سب سے زیادہ سیلاب کی زد میں ہوتی تھیں۔
انہی کھاڑیوں سے دریاؤں کا پانی بحیرہ شمال میں گرتا ہے، لیکن سمندر میں طوفان کی صورت میں سیلابی پانی زمینی علاقوں میں داخل ہو کر تباہی مچا دیتا تھا۔ اس لیے ڈیلٹا کمیشن نے مختلف ڈیموں کے ذریعے ان کھاڑیوں کو وسیع و عریض جھیلوں میں بدل دیا۔ اس کے علاوہ پشتے، خندقیں اور کنکریٹ کی سمندری دیواریں بھی مختلف مقامات پر کھڑی کی گئیں بلکہ ڈیلٹا ورکس پروجیکٹ کا بیشتر حصہ انہی پر مشتمل ہے۔
اگلی دہائیوں میں ڈیلٹا ورکس کو بہتر بنانے کے لی مزید اقدامات بھی اٹھائے گئے اور اندرونی علاقوں کو بھی سیلاب سے محفوظ بنانے کے لیے کام کیا گیا۔ ان میں سے ایک منصوبہ روم فار دا ریور تھا، جس کے تحت کھیتوں اور پشتوں کو ساحل سے دور نئی جگہ پر منتقل کیا گیا۔ یوں پانی کو مزید جگہ دی گئی کہ سیلابی صورت میں وہ نشیبی علاقوں میں جمع ہو جائے۔ یوں کئی آبی ذخائر نے جنم لیا اور مقامی جنگلی حیات کو نئے مساکن ملے۔ یوں نہ صرف سیلاب کا خطرہ گھٹ گیا بلکہ شہریوں کی منتقلی کی بدولت زیادہ گنجان اور پائیدار آبادیاں بنیں۔ ان میں سب سے شاندار شہر روٹرڈیم ہے۔ یہ ملک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی ساڑھے 6 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ دنیا کی بڑی بندرگاہوں میں شمار ہوتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً پورا شہر کی سطحِ سمندر سے نیچے واقع ہے۔
جب طوفان اور سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے تو شہر کے انتہائی گنجان آباد پرانے علاقے کو روایتی پشتوں سے تحفظ ملتا ہے۔ جبکہ نئے علاقوں تو مصنوعی طور پر اونچے کیے گئے علاقوں پر بنے ہوئے ہیں۔ بارش کا پانی محفوظ کرنے کے لیے بیشتر گھروں کی چھتوں پر باغ بنائے گئے ہیں جبکہ شہر میں کئی عمارات کو بھی پانی محفوظ کرنے والی تنصیبات میں تبدیل کیا گیا ہے، مثلاً پارکنگ گیراج اور پلازے۔ اس کے علاوہ شہر کے ساحلوں کے ساتھ ایسے عوامی مقامات بنائے گئے ہیں جو پانی کی سطح پر تیرتے ہیں۔ ان میں شمسی توانائی اور پانی کی صفائی کے نظام بھی لگائے گئے ہیں۔
یہ سب مل کر نیدرلینڈز کو دنیا کا جدید ترین واٹر مینجمنٹ سسٹم رکھنے والا ملک بناتے ہیں۔ البتہ یہ ملک اب بھی قدرتی آفات کے مقابلے میں اپنے شہروں کے تحفظ کو بہتر بنانے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈ رہا ہے۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے دنیا بھر کے ساحلی نشیبی علاقے خطرے کی زد میں آرہے ہیں، نیدرلینڈز ایک عملی مثال ہے کہ کس طرح ارادہ، عزم اور ساتھ ہی انجینئرنگ انسانوں کو مشکل ترین حالات میں بھی جینے کے راستے دکھاتی ہے۔