جمعہ, جون 27, 2025
اشتہار

مجید لاہوری: عوامی شاعر اور کالم نویس

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان میں ادب اور صحافت کی دنیا مجید لاہوری کو کبھی فراموش نہیں کرسکے گی، اور جب بھی عوامی مسائل کو معیاری اور شگفتہ ادب کے ذریعے زیرِ بحث لانے اور اربابِ‌ اختیار کو متوجہ کرنے کی بات ہو گی مجید لاہوری کو یاد کیا جائے گا، لیکن یہ بھی درست ہے کہ نئی نسل کے باذوق قارئین کی اکثریت آج ان سے واقف نہیں‌ ہے۔

مجید لاہوری مشہور و معروف ادبی رسالے نمک دان کے مدیر تھے۔ آج مجید لاہوری کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ نظم اور نثر دونوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ انھوں نے جہاں طنز و مزاح پر مبنی اپنی شاعری سے سماج کی اصلاح کے ساتھ ساتھ حکومت کو اس کے وظائف یاد دلانے کی کوشش کی، وہیں اپنے فکاہیہ کالموں‌ میں عوام کے مسائل اور مشکلات کو اس طرح بیان کیا کہ سبھی ان کے معترف ہوگئے۔

پاکستان کے اس نام وَر مزاح نگار اور مقبول کالم نویس اردو ادب میں اپنی حسِ مزاح اور برجستہ گوئی سے خوب کام لیا اور ان کا قلم مثبت فکر کے ساتھ تعمیری ادب تخلیق کرنے میں جٹا رہا۔ مجید لاہوری کا اس صنفِ‌ ادب میں‌ اپنے موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے رنگ ہی جداگانہ رہا۔ ان کا رسالہ نمک دان پندرہ روزہ تھا جو ملک بھر میں یکساں مقبول تھا۔ اس کے خریداروں میں علم و ادب سے تعلق رکھنے والے ہی نہیں کئی اہم شخصیات اور عام لوگوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ مجید لاہوری کے کالم روزنامہ جنگ میں بھی شایع ہوتے تھے۔ ان کی مقبولیت کا سبب عوام کے مسائل پر ظریفانہ انداز میں قلم اٹھانا رہا جس کے ذریعے وہ اربابِ اختیار کی توجہ ان مسائل کی جانب مبذول کرواتے تھے۔

مجید لاہوری 26 جون 1957 کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ایشین انفلوئنزا نامی وبا کا شکار ہوگئے تھے جو ان دنوں پاکستان میں پھیلی ہوئی تھی۔ مجید لاہوری کا اصل نام عبدالمجید چوہان تھا۔ وہ 1913 میں پنجاب کے شہر گجرات میں پیدا ہوئے۔ تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انھوں نے 1938 میں روزنامہ انقلاب، لاہور سے اپنا صحافتی سفر شروع کیا۔ بعد کئی اخبارات سے منسلک رہے۔ مجید لاہوری نے محکمہ پبلسٹی میں بھی ملازمت کی۔ 1947ء میں وہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں انصاف، انجام اور خورشید جیسے اخبارات میں کام کیا اور بعد میں ایک قومی روزنامے سے وابستہ ہوکر "حرف و حکایت” کے عنوان سے کالم لکھنے لگے۔ یہ سلسلہ تادمِ مرگ جاری رہا۔ مجید لاہوری کا آخری کالم ان کی وفات سے ایک روز قبل ہی شایع ہوا تھا۔

وہ خاصے لحیم شحیم، اور خوب ڈیل ڈول رکھتے تھے۔ دیکھنے والوں کو گمان گزرتا کہ وہ پہلوان رہے ہیں۔ شورش کاشمیری نے ایک مرتبہ مجید کا حلیہ اس طرح بیان کیا، ’بال کبھی مختلفُ البحر مصرعے ہوتے، کبھی اشعارِ غزل کی طرح مربوط۔ آنکھیں شرابی تھیں اور گلابی بھی۔ لیکن انہیں خوبصورت نہیں کہا جا سکتا تھا۔ چہرہ کتابی تھا۔ ناک ستواں۔ ماتھا کھلا لیکن اتنا کشادہ بھی نہیں کہ ذہانت کا غماز ہو۔ مسکراتے بہت تھے، معلوم ہوتا لالہ زار کِھلا ہوا ہے یا پھر رم جھم بارش ہورہی ہے۔ اچکن پہن کر نکلتے تو معلوم ہوتا کہ گرد پوش چڑھا ہوا ہے۔ ورنہ سیدھے سادے اور موٹے جھوٹے کپڑوں میں اکبر منڈی لاہور کے بیوپاری معلوم ہوتے تھے۔ عمر بھر اپنی ہی ذات میں مگن رہے۔ کسی انجمن ستائش باہمی سے رابطہ پیدا کیا نہ ایسی کسی انجمن کے رکن رہے۔ وہ ان جھمیلوں سے بے نیاز تھے۔ ان کا اپنا وجود ایک انجمن تھا۔‘

مجید لاہوری کا ذہن اور قلم معاشرے کے سنجیدہ اور سنگین مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے طبقاتی فرق، ناہم واریوں، سیاست اور سماج کی کم زوریوں کو سامنے لاتا رہا۔ ان کی تخلیقات میں غربا کے لیے رمضانی، مذہبی سیاسی لیڈروں کے لیے گل شیر خاں، چور بازار دولت مندوں کے لیے ٹیوب جی ٹائر جی اور کمیونسٹوں کے لیے لال خاں کی علامتیں بہت دل چسپ ہیں جو اپنے دور میں قارئین میں بے حد مقبول ہوئیں۔ تحریف کے وہ ماہر تھے۔ اور اس کے ذریعے نہایت شگفتہ اور لطیف پیرائے میں‌ اپنا مافی الضمیر قارئین تک پہنچا دیتے تھے۔

نمک دان کی بات کریں‌ تو اسے نہ صرف مجید لاہوری نے اپنی تحریروں سے سجایا بلکہ وہ ملک بھر سے ادیبوں اور شاعروں کی معیاری تخلیقات کا انتخاب بھی قارئین تک پہنچاتے رہے۔

ان دنوں ملک میں گویا مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے اور مزدور پیشہ یا غریب تو روزی روٹی کو ترس ہی گیا ہے۔ اس پس منظر میں مجید لاہوری کی یہ نمکین غزل ملاحظہ کیجیے۔

چیختے ہیں مفلس و نادار آٹا چاہیے
لکھ رہے ہیں ملک کے اخبار آٹا چاہیے

از کلفٹن تا بہ مٹروپول حاجت ہو نہ ہو
کھارا در سے تا بہ گولی مار آٹا چاہیے

مرغیاں کھا کر گزارہ آپ کا ہو جائے گا
ہم غریبوں کو تو اے سرکار، آٹا چاہیے

اور یہ شعر دیکھیے۔

فاقہ کش پر نزع کا عالم ہے طاری اے مجید
کہہ رہے ہیں رو کے سب غم خوار آٹا چاہیے

آج اس ملک میں رہائشی مقصد کے لیے زمین اور اس پر گھر تعمیر کروانا تنخواہ دار طبقہ کے لیے ممکن نہیں‌ رہا۔ لوگوں کی اکثریت ذاتی گھر خریدنے کا تصور بھی نہیں‌ کرسکتی اور کرائے کے گھروں میں ان کا قیام ہے۔ مجید لاہوری کا یہ شعر ایسے ہی لوگوں کی بے بسی کو اجاگر کرتا ہے۔

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں