صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے عبدالقدیر گزشتہ کئی دہائیوں سے بنارسی کپڑا بنانے کے کام سے وابستہ ہیں، ہوش سنبھالتے ہی انہوں نے اپنے والد اور دادا کو اس کام سے روزگار کماتے دیکھا تھا اور بعد میں وہ خود بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔
اب ان کے بیٹے بھی اسی صنعت سے وابستہ ہیں جبکہ خود عبدالقدیر 60 سال کی عمر میں بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جبکہ بنارسی کپڑا ہاتھ کی کھڈیوں پر بنایا جاتا تھا اور عبدالقدیر کے لیے یہ کل کی سی بات ہے، اس وقت بعض اوقات ایک مکمل کپڑا تیار کرنے میں 5 سے 6 دن کا وقت بھی لگ جاتا تھا، اس وقت محنت تو بہت لگتی تھی لیکن جب کپڑا بن کر تیار ہوتا تھا تو اس کی خوبصورتی اور نفاست دیکھ کر ساری محنت وصول ہوجاتی تھی۔
اب مشینیں آچکی ہیں، مشکل سے مشکل ڈیزائن زیادہ سے زیادہ ایک دن میں تیار ہوجاتا ہے، اب ڈیزائن میں بھی جدت آچکی ہے اور اس کپڑے کی خوبصورتی اور عمدگی میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
عبدالقدیر جیسے سینکڑوں کاریگر اس وقت کراچی کے اورنگی ٹاؤن بنارس مارکیٹ میں یہ کام کر رہے ہیں جو بنارسی کپڑوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہاتھ کی کھڈیوں سے مشین تک کے سفر میں نہ صرف ان کے لیے آسانی پیدا ہوئی بلکہ ان کے معاشی حالات میں بھی بہتری آئی۔
سونے چاندی کے تاروں سے پولسٹر تک کا سفر
بنارسی کلاتھ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے صدر ظفر اللہ انصاری نے اپنی ساری عمر اسی کام میں گزاری ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کبھی بنارسی کپڑے کی بنائی میں سونے اور چاندی کے تار استعمال ہوتے تھے۔ اس وقت بھی اس کپڑے سے بنی ساڑھیاں اور جوڑے احتیاط سے دہائیوں تک پہنے جاتے تھے، اور بالآخر جب کپڑے کا رنگ اور اس کی چمک مدھم پڑجاتی تو خواتین ساڑھی کو جلا کر سونا اور چاندی الگ کرلیتی تھیں اور انہیں احتیاط سے رکھ لیتی تھیں۔
’لیکن اب ایک لاکھ روپے سے زائد سونے کی قیمت میں ایسے لباس بنانا خواب و خیال ہوگیا ہے، کم از کم 30 سال قبل تک چاندی کے تاروں کا تو کام ہم نے کیا ہے، لیکن سونے کے تاروں سے متعلق صرف اپنے بڑوں سے سنا ہی ہے۔‘
ظفر اللہ انصاری کے مطابق خالص ریشم، جس پر بنارسی ڈیزائن تیار ہوتا ہے، جس کیڑے سے تیار ہوتا ہے وہ شہتوت کے درختوں میں پلتا ہے۔ کبھی چھانگا مانگا کے جنگلات ان کیڑوں کی افزائش کا بڑا مرکز تھے۔ یہ کیڑے کوکون پیدا کرتے ہیں جس سے ریشم بنتا ہے، اب ریشم کا یہ مرکز چین ہے جہاں سے کوکون پوری دنیا میں برآمد کیا جاتا ہے۔
اپنی یادیں کھگالتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ بھارت کے بنارس (موجودہ وارانسی) سے آنے والے کاریگر تو لٹے پٹے آئے تھے، یہاں انہوں نے مقامی بڑھئیوں سے کھڈیاں بنوائیں اور جیسے تیسے کام شروع کیا۔ 60 کی دہائی میں یہ باقاعدہ مارکیٹ قائم ہوئی اور آج یہ پاکستان میں بنارسی کپڑے کا سب سے مرکز ہے۔
ابتدا میں یہ کام روایتی کھڈیوں پر ہوتا تھا جو وقت اور محنت طلب تھا، پھر آہستہ آہستہ کمپیوٹرز اور مشینوں کا استعمال شروع کردیا گیا جس سے کپڑے کی پروڈکشن میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔
اب تقریباً 95 فیصد کام مشینوں اور صرف 5 فیصد کھڈی پر ہوتا ہے۔
کاریگر عبدالقدیر بتاتے ہیں کہ مشینوں سے کام کرنا بہت آسان ہے، کھڈی پر کام کرنے والے تقریباً سب ہی کاریگر جلد اس طریقہ کار کو سیکھ گئے۔ مشینوں کی مدد سے جہاں ڈیزائن میں جدت آئی اور کپڑے کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا، وہیں اس سے حاصل ہونے والا منافع بھی بڑھا، ’کاریگر اور سیٹھ دونوں کو ہی اس سے فائدہ ہوا، لیکن اب خام مال بہت مہنگا ہوتا جارہا ہے جس سے منافع کی رقم میں کمی آرہی ہے۔‘
اس حوالے سے ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری اظہار احمد انصاری بتاتے ہیں کہ خالص ریشم پر کام کرنے کا تو اب تصور ہی نہیں رہا، یہ قوت خرید سے باہر ہوچکا ہے۔ اب پولسٹر اور نائلون کی آمیزش سے، یا پھر سنتھٹک سلک جسے مصنوعی ریشم کہا جاتا ہے پر کام کیا جارہا ہے۔
ان کے مطابق باہر سے درآمد شدہ ریشم 15 سے 18 ہزار روپے کلو میں ملتا ہے، دیگر اخراجات اور ٹیکسز الگ ہیں، پھر کووڈ 19 کی وبا کے دوران کاروبار میں کمی آئی، تو ہر صنعت کی طرح یہ صنعت بھی مشکلات کا شکار ہے۔
ظفر اللہ کا کہنا ہے کہ پہلے گھر گھر میں کھڈیاں موجود تھیں تو گھر کے سبھی افراد بشمول خواتین کپڑا بنانے کے کام میں شامل تھیں، چرغے بھرنا، اور کپڑا تیار ہونے کے بعد دھاگے کاٹنے کا کام خواتین ہی کرتی تھیں۔
اب مشینوں کے لیے زیادہ جگہ چاہیئے تو باقاعدہ کارخانے بن گئے ہیں جس پر عموماً مرد ہی کام کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اب کاریگروں کی نئی نسل نے اس کاروبار کو بھی نئی جہت دی ہے، انٹرنیٹ کے استعمال، مارکیٹنگ کے نئے طریقوں اور اعلیٰ تعلیم کی بدولت نوجوان اس صنعت کو پہلے سے بہتر طور پر چلا رہے ہیں، البتہ کئی نوجوان ایسے بھی ہیں جو اس خاندانی کام کو چھوڑ کر دیگر شعبوں میں کام اور ملازمتیں کر رہے ہیں۔
بقول ظفر اللہ انصاری، ’بنارس کے کاریگر ایسے ہنر مند ہیں کہ کپڑے پر کسی کی تصویر تک بنا سکتے ہیں، لیکن اب وقت کا تقاضا ہے کہ کم وقت میں زیادہ پروڈکشن کی جائے، سو اب مشینیں مخصوص ڈیزائن بنا رہی ہیں، گو کہ اب اس کپڑے میں بہت جدت آچکی ہے، لیکن اس کی پسندیدگی اور مقبولیت میں کمی نہیں آئی اور آج بھی شادیاں بنارسی کپڑوں کے بغیر ادھوری ہیں۔‘