ریاض: مکہ مکرمہ میں ستمبر 2015ء میں مسجد الحرام کے احاطے میں کرین گرنے کے حادثے کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ترقیاتی کاموں میں حصہ لینے والے افراد کے پاس کرین چلانے کے لائسنس ہی نہیں تھے۔
تفصیلات کے مطابق مسجد الحرام میں کرین گرنے کے حادثے کی تحقیقات کے حوالے سے مکہ کی فوجداری عدالت نے حادثے کی تحقیقاتی رپورٹس جاری کی ہیں جن میں انتظامی طور پر سنگین بے ضابطگیاں سامنے آئیں جبکہ سیفٹی ماہرین نے بھی عدالت میں ہوشربا انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ کرین آپریٹر کے پاس تو کرین کو چلانے کا لائسنس ہی موجود نہیں تھا اور وہ اُس مقام پر غیر تربیتی یافتہ انجینئر کام کررہے تھے۔
سیفٹی ماہرین نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ حادثے کی صورت میں تحفظ اور کرین کو چلانے کے لیےاحتیاط کے حوالے سے کوئی ہدایات نہیں دی گئی تھیں تاہم تحقیقاتی کمیٹی نے حادثے میں اور بھی بہت سی بے ضابطگیوں کا سراغ لگایا ہے، ذرائع کے مطابق حادثے کی جگہ پر کام کرنے والا ایک انجنیئر اور دیگر لوگوں کے پاس کرین چلانے کے رہنما کتابچے موجود نہیں تھے اور نہ ہی مزدوروں کو اس حوالے سے کوئی علم تھا۔
محکمہ انصاف کی جانب سے فوجداری عدالت سے اعتراضات کا جواب جمع کروایا جائے گا، جس کے بعد فوجداری عدالت سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس مقدمے کی سماعت نہ کرے اور اس کو سعودی شہری دفاع کونسل کے پاس بھیج دے۔
یاد رہے سعودی عرب کا ادارہ برائے تحقیقات اور سرکاری استغاثہ کرین حادثے میں کسی بھی قسم کے مجرمانہ محرک کے امکان کو پہلے ہی مسترد کرچکا ہے، حکام کی جانب سے عدالت میں یہ مؤقف پیش کیا گیا تھا کہ حادثہ شدید آندھی اور طوفان کی وجہ سے پیش آیا۔
دوسری جانب تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ کرین کو غلط انداز میں نصب کیا گیا تھا، اسی وجہ سے 13 سو ٹن وزنی کرین 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی تیز ہووائیں برداشت نہ کرسکی اور حادثہ پیش آیا اور اس کے نتیجے میں ایک سو گیارہ عازمین حج و عمرہ شہید جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔