اشتہار

منصور علی خان: ایک ریاست کا نواب جو کرکٹ کے میدان کا ‘ٹائیگر’ مشہور تھا!

اشتہار

حیرت انگیز

ریاست پٹودی کے نواب محمد افتخار علی خان اور اُن کے بیٹے منصور علی خان نے بطور کرکٹر انگلستان اور بھارت کی نمائندگی کی تھی۔ بھارت کے دارُالحکومت دہلی سے تقریباً 60 کلومیٹر دور واقع پٹودی کو انگریز دور میں ریاست کا درجہ ملا تھا۔

پٹودی میں اکثریت ہندوؤں کی تھی اور نواب خاندان مسلمان تھا۔ آج اسی خاندان کے منصور علی پٹودی کی برسی ہے جن کی ایک وجہِ شہرت کرکٹ ہے۔ ان کے بیٹے سیف علی خان اور بیٹی سوہا خان بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف چہرے ہیں جب کہ منصور علی خان پٹودی کی اہلیہ شرمیلا ٹیگور بھی انڈسٹری کا مشہور نام ہیں۔ نواب منصور علی خان پٹودی 22 ستمبر 2011ء کو وفات پا گئے تھے۔

منصور علی خان نے 5 جنوری 1941ء کو بھوپال کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ کرکٹ کا شوق انھیں اپنے والد کو دیکھ کر ہوا جو ٹیسٹ کرکٹ میں انگلینڈ اور ہندوستان دونوں ممالک کی نمائندگی کرچکے تھے۔ منصور علی خان پٹودی 11 سال کے تھے جب پولو کھیلتے ہوئے ان کے والد کا انتقال ہوا۔ یوں کم عمری میں انھیں ریاستی امور دیکھنا پڑے جو ایک بھاری ذمہ داری تھی۔

- Advertisement -

وقت کے ساتھ ریاست کے اس نواب کی کرکٹ میں دل چسپی بڑھتی جارہی تھی اور وہ ایک اچھے بلّے باز اور پھرتیلے فیلڈر کے طور پر مشہور ہوئے۔ انھیں لوگوں نے کرکٹ کے میدان کا ٹائیگر کہنا شروع کر دیا تھا۔ منصور علی خان پٹودی نے 16 سال کی عمر میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی اور اس کھیل میں سسیکس اور اوکسفرڈ یونیورسٹی کی نمائندگی بھی کی۔ وہ پہلے ہندوستانی کرکٹر تھے جسے کسی انگلش کاؤنٹی کا کپتان بنایا گیا۔

نواب پٹودی 1961ء میں کار‌ کے ایک حادثے کا شکار ہوئے جس میں ان کی ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی، مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ کا سفر جاری رکھا اور اس حادثے کے صرف ایک سال بعد ہی انھیں بھارت کی کرکٹ ٹیم کی قیادت بھی سونپی گئی۔ اس کے بعد منصور علی خان پٹودی کو مستقل کپتان بنا دیا گیا۔ منصور علی خان نے اپنے کیریئر میں 46 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 40 میچوں میں ٹیم کی قیادت بھی وہی کررہے تھے۔ ایک انٹرویو میں نواب منصور پٹودی نے بتایا تھا کہ انھوں نے کانٹیکٹ لینس کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی لیکن انھیں گیند دو نظر آتی تھیں۔ پھر انھوں نے کانٹیکٹ لینس ہٹا دیا اور اپنی داہنی آنکھ پر ہیٹ گرا کر کھیلنا شروع کیا، لوگ سمجھتے کہ یہ اسٹائل ہے لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔

نواب پٹودی موسیقی سے بڑا لگاؤ رکھتے تھے اور انھیں ہارمونیم اور طبلہ بجانے کا شوق تھا۔ ان کی اہلیہ شرمیلا ٹیگور کہتی ہیں کہ ’پٹودی کو طبلے کا اتنا شوق تھا کہ وہ کبھی کبھی معروف سرود نواز امجد علی خان کے ساتھ طبلہ پر ان کا مقابلہ کیا کرتے۔‘ منصور علی خان نے بھارت کی سیاست میں بھی قسمت آزمائی کی تھی۔ وہ بتاتے تھے کہ انھیں کئی مرتبہ مختلف شخصیات نے سیاست میں آنے کی دعوت دی تھی لیکن جب راجیو گاندھی نے کہا تو وہ انھیں منع نہیں کر سکے۔ تاہم انتخابات میں نواب پٹودی کام یاب نہیں ہوسکے اور راجیو گاندھی کے قتل کے بعد سیاست میں ان کو دل چسپی بھی نہیں رہی۔

شرمیلا ٹیگور ہندی سنیما میں نام بنا چکی تھیں اور نواب پٹودی 1965ء میں اُن سے ملے تھے۔ اِنھوں نے شادی کا فیصلہ کیا جس کے لیے شرمیلا نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا نام عائشہ رکھا۔ انھیں بھارتی حکومت نے پدما شری ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

دہلی میں وفات پانے والے نواب منصور علی خان کی عمر ستّر سال تھی۔ انھیں پٹودی میں سپردِ خاک کیا گیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں