اردو ادب میں سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی کا بنیادی حوالہ ان کی افسانہ نگاری ہے، لیکن مختلف موضوعات پر ان دونوں ادیبوں کے علمی و تحقیقی مضامین، کالم اور خاکے بھی اس دور کے قارئین میں مقبول ہوئے۔
سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی ہم عصر تخلیق کار ہی نہیں دوست بھی تھے۔ ان دونوں ادیبوں میں شناسائی کی وجہ اور ان دس دنوں کی روداد پڑھیے جنھوں اپنے وقت کے ان عظیم لکھاریوں کو دوستی کے تعلق میں باندھ دیا۔
1931 میں تحریکِ آزادی کے نام ور راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے، جہاں وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھاکہ وہ ایک غلام ملک یعنی ہندوستان واپس نہیں جائیں گے۔
آزادی کے ہیرو مولانا جوہر کی اس خواہش کا احترام کیا گیا اور انہیں فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔
ممتاز افسانہ نگار اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے نکلنے والے اخبار ’سیاست‘ میں شایع ہوئی۔ اس نظم کو قاسمی صاحب اپنے شعری سفر کا آغاز کہتے تھے۔
اسی دور میں انہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے۔ ان کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شایع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔
قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد ان کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔
منٹو ہی کی دعوت پر وہ نئی دہلی گئے، جہاں دس دن تک منٹو کے ساتھ رہے۔ یہی دس دن ان دنوں کے درمیان گہری دوستی کی بنیاد بنے۔
اردو زبان کے ان دو نام ور افسانہ نگاروں کے درمیان مراسم منٹو کے انتقال تک قائم رہے۔