سعادت حسن منٹو نہیں رہا، مگر اس کی کہانیوں کے کردار آج بھی زندہ ہیں جن میں کم ہی تعمیری اور مثبت سوچ کے ساتھ معاشرے کو کچھ دے رہے ہیں، اکثریت انہی کی ہے جن کو اپنا حال اور مستقبل بہتر بنانے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے وہ کر گزریں گے، ان کے نزدیک کوئی اصول، اخلاقی پیمانہ، قاعدہ قانون معنی نہیں رکھتا۔ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائے یہ لوگ جنھیں منٹو نے اپنے افسانوں میں پیش کیا، ہمارے اردگرد موجود ہیں۔
کل منٹو کی برسی تھی۔ وہی منٹو جس نے انسانوں کو حیوان بنتے دیکھا۔ کبھی دین دھرم کے نام پر ظلم دیکھا تو کبھی ذات پات اور برادری کے زعم میں انسانوں کی تذلیل دیکھی اور کبھی دولت اور طاقت کے زور پر انسانیت کا قتل۔
سماج کے طاقت وَر اور بااختیار طبقات کی ناراضی مول لینے میں سعادت حسن منٹو نے ہچکچاہٹ یا کم زوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے مخصوص ذہنیت کے حامل اور روایتی سوچ رکھنے والوں کو بھی نہیں چھوڑا، اور اپنی تحریروں میں انفرادی اور اجتماعی بے حسی اور منافقت کا پردہ چاک کرتا رہا۔ موت تو ایک اٹل حقیقت ہے۔ منٹو بھی مٹی میں مل گیا، اور آج تک لوٹ کر نہیں آیا، مگر کیا غضب ہے کہ ان سارے کرداروں کا آج بھی نئے چہروں اور ناموں کے ساتھ ہماری دنیا میں آنا جانا لگا ہوا ہے جنھیں منٹو نے اپنے قلم کی نوک سے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔
ہندوستان کے بٹوارے کے بعد جو واقعات پیش آئے اور لوگوں پر جو قیامتیں گزریں، وہ اردو ادب کا حصّہ ہے۔ منٹو نے بھی تقسیم کے بعد انسانیت کی پامالی کے مناظر کو اپنی تحریروں میں دکھایا۔ مشہور افسانہ نگار اور ادیب سعادت حسن منٹو کی یہاں ہم وہ تین کہانیاں نقل کررہے ہیں جو مختصر نویسی میں مصنّف کے کمال کی نظیر بھی ہیں، اور ظلم اور ناانصافی کی جھلک بھی دکھاتی ہیں۔ ‘‘سیاہ حاشیے’’ سے لی گئی ایک کہانی پڑھیے۔
عنوان: پیش بندی
پہلی واردات ناکے کے ہوٹل کے پاس ہوئی، فوراً ہی وہاں ایک سپاہی کا پہرہ لگا دیا گیا۔
دوسری واردات دوسرے ہی روز شام کو اسٹور کے سامنے ہوئی، سپاہی کو پہلی جگہ سے ہٹا کر دوسری واردات کے مقام پر متعین کردیا گیا۔
تیسرا کیس رات کے بارہ بجے لانڈری کے پاس ہوا۔ جب انسپکٹر نے سپاہی کو اس نئی جگہ پہرہ دینے کا حکم دیا تو اس نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔
‘‘ مجھے وہاں کھڑا کیجیے جہاں نئی واردات ہونے والی ہے۔’’
ایک اور کہانی ملاحظہ کیجیے جس میں سعادت حسن منٹو ہماری موقع پرستی یا تاجرانہ ذہنیت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔
عنوان: دعوتِ عمل
آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔
صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا، ‘‘ یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے’’
منٹو نے 11 مئی 1912ء کو سمرالہ، ضلع لدھیانہ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم امرتسر سے حاصل کی اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وقت گزارا، مگر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور واپس امرتسر آگئے۔ لکھنے لکھانے کا شوق تھا۔ ادب، فلم اور صحافت میں نام کمایا۔ ابتدا میں انھوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں فلمی صحافت سے وابستہ ہوئے اور کئی رسالوں کی ادارت کی۔ افسانہ نگاری کے ساتھ انھوں نے فلموں کی کہانیاں اور مکالمے، خاکے بھی تحریر کیے اور تقسیم کے بعد لاہور چلے آئے۔ منٹو کے قلم نے جنسی موضوعات اور ہجرت پر جو کہانیاں لکھیں، اس نے منٹو کو جرأت مند، کھرا اور صاف گو بھی ثابت کیا اور اسی پر انھیں گھٹیا اور سستے قلم کار کا طعنہ بھی اور فحش نگاری کا الزام بھی ان پر لگا۔ 18 جنوری 1955ء کو منٹو دنیا سے چلے گئے۔
منٹو کی یہ کہانی پڑھ کر خیال آتا ہے کہ کیسے کوئی انسان مال و دولت کی خاطر اپنی زندگی گنوانے کو تیار ہوجاتا ہے۔ اور ظاہر ہے ایسا شخص موقع ملنے پر مال ہتھیانے کے لیے کسی دوسرے انسان سے اس کی زندگی چھین بھی سکتا ہے۔ کہانی پڑھیے۔
عنوان:خبردار
بلوائی مالک مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے۔
کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔
‘‘تم مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’
سعادت حسن منٹو نے تو اپنے ہم پیشہ، اہلِ قلم اور اخبار و جرائد کے مالکان کو بھی نہیں بخشا اور جھوٹ، غلط بیانی، دھوکہ دہی اور ناانصافی پر خوب بولے۔ منٹو کا ایک مضمون پیشِ خدمت ہے:
"مجھے شکایت ہے ان لوگوں سے جو اردو زبان کے خادم بن کر ماہانہ، ہفتہ یا روزانہ پرچہ جاری کرتے ہیں اور اس ’’خدمت‘‘ کا اشتہار بن کر لوگوں سے روپیہ وصول کرتے ہیں مگر ان مضمون نگاروں کو ایک پیسہ بھی نہیں دیتے، جن کے خیالات و افکار ان کی آمدن کا موجب ہوتے ہیں۔
مجھے شکایت ہے ان ایڈیٹروں سے جو ایڈیٹر بھی ہیں اور مالک بھی۔ جو مضمون نگاروں کی بدولت چھاپے خانے کے مالک بھی ہیں لیکن جب ایک مضمون کا معاوضہ دینا پڑ جائے تو ان کی روح قبض ہو جاتی ہے۔
مجھے شکایت ہے ان سرمایہ داروں سے جو ایک پرچہ روپیہ کمانے کے لیے جاری کرتے ہیں اور اس کے ایڈیٹر کو صرف پچیس یا تیس روپے ماہوار تنخواہ دیتے ہیں۔ ایسے سرمایہ دار خود تو بڑے آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن وہ ایڈیٹر جو خون پسینہ ایک کر کے ان کی دولت میں اضافہ کرتے ہیں، آرام دہ زندگی سے ہمیشہ دور رکھے جاتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے ان ناشروں سے جو کوڑیوں کے دام تصانیف خریدتے ہیں اور اپنی جیبوں کے لیے سیکڑوں روپے اکٹھے کر لیتے ہیں۔ جو سادہ لوح مصنفین کو نہایت چالاکی سے پھانستے ہیں اور ان کی تصانیف ہمیشہ کے لیے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے ان سرمایہ دار جہلا سے جو روپے کا لالچ دے کر غریب اور افلاس زدہ ادیبوں سے ان کے افکار حاصل کرتے ہیں اور اپنے نام سے انہیں شائع کرتے ہیں۔
سب سے بڑی شکایت مجھے ان ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں سے ہے جو اخباروں اور رسالوں میں بغیر معاوضے کے مضمون بھیجتے ہیں۔ وہ کیوں اس چیز کو پالتے ہیں جو ایک کھیل بھی ان کے منہ میں نہیں ڈالتی۔ وہ کیوں ایسا کام کرتے ہیں جس سے ان کو ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا۔ وہ کیوں ان کاغذوں پر نقش و نگار بناتے ہیں جو ان کے لیے کفن کا کام بھی نہیں دے سکتے۔
مجھے شکایت ہے…… مجھے شکایت ہے…… مجھے ہر اس چیز سے شکایت ہے جو ہمارے قلم اور ہماری روزی کے درمیان حائل ہے۔ مجھے اپنے ادب سے شکایت ہے جس کی کنجی صرف چند افراد کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ ادب کی کنجی پریس ہے۔ جس پر چند ہوس پرست سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ چند ایسے تاجروں کا قبضہ ہے جو ادب سے اتنے ہی دور ہیں جتنے کہ وہ تجارت کے نزدیک۔ مجھے اپنے ہم پیشہ ادیبوں سے شکایت ہے جو چند افراد کی ذاتی اغراض اپنے قلم سے پوری کرتے ہیں، جو ان کے جائز اور ناجائز مطالبے پر اپنے دماغ کی قاشیں پیش کر دیتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے۔ مجھے اپنے آپ سے بھی شکایت ہے۔ اس لیے کہ میری آنکھیں بہت دیر کے بعد کھلی ہیں۔ بڑی دیر کے بعد یہ مضمون میں لکھنے بیٹھا ہوں جو آج سے بہت پہلے مجھ لکھ دینا چا ہیے تھا۔