تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

کرونا انفیکشن کی شدت اور انسانی جینز میں کیا تعلق ہے؟ بڑی تحقیق کے نتائج سامنے آ گئے

ہلسنکی: کرونا وائرس کی وبا کے آغاز ہی سے دنیا بھر سے ہزاروں سائنس دانوں پر مشتمل ایک ٹیم نے اس اہم ترین سوال کا جواب تلاش کرنا شروع کر دیا تھا کہ بعض مریضوں میں کووِڈ 19 شدید اور جان لیوا انفیکشن کیوں پیدا کرتا ہے، جب کہ دیگر لوگوں میں معمولی علامات ہی نمودار ہو پاتی ہیں، اور اس سلسلے میں کون سے جینیاتی عوامل کارفرما ہیں۔

مارچ 2020 میں اکھٹے ہونے والے سائنس دانوں نے ایک نہایت جامع خلاصہ جریدے نیچر میں شایع کیا ہے، جس میں انسانی جینوم میں ایسے 13 مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے، جو قوی طور پر شدید کرونا انفیکشن کے ساتھ جڑے ہیں۔

محققین نے اس سلسلے میں کچھ عمومی عوامل کی بھی نشان دہی کی ہے، جیسا کہ سگریٹ نوشی اور موٹاپا۔ یہ نتائج اب تک کی سب سے بڑی جینوم تحقیقات کے بعد سامنے آئے ہیں، جس میں تقریباً 50 ہزار کرونا مریضوں اور 20 لاکھ غیر انفیکٹڈ افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

یہ عالمی کوشش ’کووِڈ نائٹین ہوسٹ جینیٹکس انیشیئٹیو‘ مارچ 2020 میں اینڈریا گانا نے قائم کی تھی، جو کہ فن لینڈ مالیکیولر میڈیسن انسٹیٹیوٹ کے گروپ لیڈر ہیں، ان کے ساتھ اس ادارے کے ڈائریکٹر مارک ڈیلی بھی ہمراہ تھے، یہ آج انسانی جینیٹکس کا سب سے وسیع ترین اشتراک ہے، جس میں فی الوقت 25 ممالک سے 3 ہزار 300 مصنفین شامل ہیں اور 61 مطالعہ جات ہو چکی ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ انسانی جینز کووِڈ 19 کی شدت میں کردار ادا کرتے ہیں، اس سے قبل بیماری کی شدت بڑھنے والے متعدد عناصر کی نشان دہی کی گئی تھی، جیسا کہ عمر، جنس، طرز زندگی وغیرہ۔

اس تحقیق میں مشرقی ایشیائی یا جنوبی ایشیائی افراد میں جنیوم میں 2 لوکیشنز کو یورپی افراد کے مقابلے میں زیادہ عام دریافت کیا گیا، تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جینز کا ایک دوسرے سے ملنا کووِڈ نائنٹین کی سنگین شدت اور دیگر امراض کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایک جین ڈی پی پی 9 کو کووِڈ نائنٹین کی سنگین شدت سے منسلک کیا گیا ہے، جس کو پہلے پھیپھڑوں کے کینسر اور پھیپھڑوں کے دیگر امراض کا حصہ بھی بتایا گیا تھا، اسی طرح ’ٹی وائے کے 2‘ نامی جین جو کچھ آٹو امیون امراض پر اثرانداز ہوتا ہے، کو بھی کووِڈ 19 کی سنگین شدت کا باعث دیکھا گیا۔

ایک اور جینیاتی مقام اے بی او تھا، جو کسی فرد میں خون کے گروپ کا تعین کرتا ہے اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وہ بیماری سے متاثر ہونے کا خطرہ 9 سے 12 فی صد تک بڑھا دیتا ہے۔ اس سے ان تحقیقی رپورٹس کو تقویت ملتی ہے جن میں خون کے مخصوص گروپس اور کووِڈ 19 سے متاثر ہونے کے خطرے کے درمیان تعلق کا ذکر کیا گیا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ صرف وائرل جینوم نہیں بلکہ انسانی جینوم بھی اہمیت رکھتا ہے، یہ واضح ہے کہ جینز کووِڈ نائنٹین کی شدت میں ایک کردار ادا کرتے ہیں اور یہ خطرہ بڑھانے والے متعدد عناصر میں سے ایک ہے۔ اس تحقیق پر ابھی بھی کام جاری ہے اور بہت کچھ دریافت کیا جانا باقی ہے۔

اب محققین یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر کووِڈ نائنٹین کو شکست دینے والے کچھ افراد مہینوں تک طویل المیعاد علامات کا سامنا کیوں کرتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -